باقی مالیاتی امور کو آگے بڑھانے کے لیے6سے7ورکنگ گروپ بنائے جائیں گے، سابق فاٹا کے معاملے پر بھی الگ ورکنگ گروپ بنایا جائے گا۔جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سندھ اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ بطور صوبائی وزرائے خزانہ شریک ہوئے جبکہ پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے خزانہ اور پرائیوٹ ممبران بھی موجود تھے۔
اجلاس میں صوبہ سندھ نے وسائل کی تقسیم کے کسی بھی نئے فارمولے پر اتفاق رائے کو قومی مالیاتی کمیشن کے پلیٹ فارم پر ہونے والی بات چیت کے ساتھ جوڑ دیا اورمطالبہ کیا کہ وفاق کی طرف سے بعض مالیاتی ذمہ داریاں صوبوں کے سپرد کرنے کے بجائے بات چیت کو صرف ریونیوشیئرنگ تک محدود رکھا جائے۔
وفاق کی طرف سے آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کا کم ازکم شیئر57.5 سے کم کرنے کی سندھ اور خیبرپختونخوا نے مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاملہ صرف این ایف سی پلیٹ فارم پر ہی اٹھایا جائے۔موجودہ اجلاس کی بحث کو صرف ریونیوتک محدود رکھا جائے ۔
این ایف سی کا آئندہ اجلاس 8یا 15جنوری کو ہوگا۔ اجلاس میں وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے اپنی مالی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جبکہ چاروں صوبوں نے اپنی مالی پوزیشن کی وضاحت کی۔وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزرائے خزانہ، سیکرٹریز اور دیگر ارکان کا اجلاس میں شرکت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اجلاس آئینی ذمہ داری اور باہمی تعاون کا اہم موقع ہے،وفاقی حکومت کا واضح اور پُختہ عزم تھا کہ 11ویں این ایف سی کا افتتاحی اجلاس کسی تاخیر کے بغیر بلایا جائے۔
وزیراعظم نے خود اس بات میں گہری دلچسپی لی کہ یہ اجلاس جلد از جلد ہو۔ صوبوں نے بھی اس آئینی ذمہ داری کو بروقت ادا کرنے کا بھرپور ارادہ ظاہر کیا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے باعث یہ اجلاس مؤخر کرنا پڑا،این ایف سی کے حوالے سے قیاس آرائیوں، خدشات کے حل کیلئے یہ مخلصانہ اور شفاف مکالمہ ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ یہ ابتدائی اجلاس تھا اس میں صرف وے فارورڈ پر بات ہوئی ہے کہ اگلا اجلاس کب ہونا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے مشیر خزانہ مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ این ایف سی کا اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا۔بڑے صوبوں نے چھوٹے صوبوں کی سپورٹ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ فاٹا،پاٹا کو صوبے میں ضم کرنے سے اسکا حصہ این ایف سی کے ذریعے کے پی کے کیلئے شامل کرنے پر بھی سب نے حمایت کی۔
وفاق کی جانب سے این ایف سی میں صوبوں کا شیئر کم کرنے کی باتیں محض قیاس آرائیاں تھیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے وسائل کی تقسیم کے دو نئے طریقہ ہائے کار پر تجاویز وزیراعظم کو پیش کردی ہیں، پہلی تجویز قابل تقسیم محاصل سے دہشتگردی کیخلاف جنگ، واٹرسکیورٹی، سول آرمڈ فورسز اور آزاد کشمیر وگلگت بلتستان کی گرانٹس کے لیے ڈھائی فیصد کٹوتی کی ہے جس کے بعد ساڑھے57فیصد صوبوں اور ساڑھے42 فیصد وفاق کو ملے گا۔
دوسری تجویز کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اخراجات قابل تقسیم محاصل سے پہلے نکال لیے جائیں جس سے 2030ء تک وفاق کے وسائل میں 11سے12فیصد اضافہ متوقع ہے۔ صوبوں کے درمیان این ایف سی کی تقسیم میں آبادی کا وزن کم کرکے ریونیو جنریشن، زرخیزی اورفارسٹ کوورجیسے عوامل کو بڑھانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔وفاقی وزارت خزانہ نے تجویز دی کہ صوبے مالی اخراجات کی ذمہ داریاں بھی اٹھائیںاور اس کیلئے اپنی آمدنی بڑھائیں۔
اس کیلئے وفاق اورصوبوں کو مل کر اپنی ریونیوکلیکشن جی ڈی پی کے 6 فیصد تک بڑھانا چاہیے۔چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ صوبے جو اس وقت صرف0.8 ریونیواکٹھے کرتے ہیں انہیں یہ کلیکشن تین فیصد تک بڑھانی چاہیے، وفاق کو بھی 2028ء تک اپنی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 3.5 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد تک لانی چاہیے۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ وفاق کو 7 ٹریلین روپے کی اضافی آمدن حاصل ہونے سے اس کی مالی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ان کا مزیدکہناتھا کہ بجٹ خسارہ جو 2010ء سے پہلے جی ڈی پی کا محض چار فیصد تھا 2011ء سے 2025ء کے دوران بڑھ کر 7 فیصد ہوگیا ہے۔اجلاس میں منصفانہ این ایف سی ایوارڈ تک پہنچنے کیلئے ٹیکنیکل بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے تقاضا کیا کہ گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کوساتویں این ایف سی سے شروع کیا جائے ۔اس کے تحت آبادی ،غربت اوردوسرے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف خیبرپختونخوا کا شیئر بڑھایا جائے بلکہ2019-20 سے لے کر 2025-26ء تک کے بقایا جات بھی دیئے جائیں ۔خیبرپختونخوا حکومت نے انسداد دہشتگردی کیلئے دی جانے والی رقم میں بھی تین گنا اضافے کا مطالبہ کیا۔
وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستانیوں میں خیبرپختونخوا کے ورکر مجموعی ترسیلات کا30 فیصد بھیجتے ہیں لیکن کے پی کی آبادی ملکی آبادی کا صرف 17 فیصد ہے۔خیبرپختونخوا میں گھریلوآمدنی کا 18.8 فیصد بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات کی صورت میں آتا ہے،اس کی اگرملکی اوسط دیکھی جائے تو یہ صرف 8.6 فیصد بنتی ہے۔