ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، وزیراعلیٰ نے ویڈیو لنک کے ذریعے صدارت کی۔ انہوں نے آئندہ ماہ کے لیے جامع پالیسی گائیڈ لائنز جاری کر دیں۔ اجلاس میں صوبائی انتظامی اُمور، گڈ گورننس، این ایف سی شیئر، سیکیورٹی صورتحال اور انسانی حقوق سے متعلق متعدد اہم معاملات زیر غور آئے۔
وزیراعلی سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ کسی بھی پرائیویٹ ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعے بھرتیاں نہیں کرے گا، سول افسران، بالخصوص ضلعی انتظامیہ کو بلٹ پروف گاڑیاں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی۔
وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ گاڑیوں کی خریداری میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کیا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اسے غیر انسانی اقدام قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ صوبائی حکومت اس رویے کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔
انہوں ںے وفاقی وزراء کی گزشتہ روز کی حالیہ پریس کانفرنس کو غیرانسانی، غیراخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی پریس بریفنگز کا مقصد محض عوام کو اشتعال دلانا اور حالات کو جان بوجھ کر خراب کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ایسے ہرعمل کی مذمت کرتی ہے جو ریاستی تقسیم یا عوامی بے چینی کا باعث بنے، اجلاس میں گڈ گورننس سے متعلق اہم فیصلے بھی کیے گئے۔
وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت پہلے ہی گڈ گورننس روڈ میپ دے چکی ہے اور اب اس پر مزید سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
سہیل آفریدی کے مطابق سرکاری اجلاسوں میں سول افسران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنائیں اور جہاں ممکن ہو، اجلاسوں میں آن لائن شرکت کی جائے تاکہ سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی ہو سکے۔
انہوں نے مزید اعلان کیا کہ صوبے کے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار اداروں میں بھرتیاں صرف ایٹا کے ذریعے ہوں گی۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ کسی بھی پرائیویٹ ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعے بھرتیاں نہیں کرے گا۔ اس فیصلے کا مقصد شفافیت، میرٹ اور بدعنوانی کے تدارک کو یقینی بنانا ہے۔
اجلاس میں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ہونے والے اہم قومی اجلاس کا ذکر بھی کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے کل ہونے والے قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں صوبے کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا، جس کی تمام شرکاء نے تائید کی۔
صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ ضم شدہ اضلاع کا حصہ ابھی تک این ایف سی میں شامل نہیں، جو اندازاً 1375 ارب روپے بنتا ہےاور یہ صوبے کے مالی حقوق کا بنیادی مسئلہ ہے۔
سہیل آفریدی نے طورخم بارڈر کی بندش کے سنگین انسانی اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ 55 دن سے جاری بندش کے باعث ٹرانسپورٹرز، ڈرائیورز، خواتین، مرد اور بچے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ضلعی انتظامیہ خیبر کو ہدایت کی کہ بارڈر پر پھنسے تمام افراد کو کھانا، پینے کا صاف پانی اور ضروری سہولیات فوری فراہم کی جائیں۔
اجلاس میں سیکیورٹی کے حوالے سے بھی اہم فیصلہ کیا گیا کہ سول افسران، بالخصوص ضلعی انتظامیہ کو بلٹ پروف گاڑیاں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی۔
وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ ان گاڑیوں کی خریداری میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کیا جائے تاکہ افسران اپنی ذمہ داریاں محفوظ ماحول میں سر انجام دے سکیں۔
صوبائی کابینہ کے اس جامع اجلاس میں گڈ گورننس، صوبائی حقوق، انسانی سہولیات اور سیکیورٹی سے متعلق جو فیصلے کیے گئے، انہیں مستقبل کی حکمرانی کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔