غزہ کا انتظام چلانے کے لیے بین الاقوامی کمیٹی کا اعلان 2025 کے آخر تک ہو جائے گا: حکام

امریکا کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی کے اگلے مرحلے میں غزہ میں بین الاقوامی اتھارٹی کا اعلان رواں سال کے اختتام تک متوقع ہے، یہ اتھارٹی غزہ کی تعمیرِ نو اور انتظامی امور کی نگرانی کرے گی۔ دوسری جانب 8 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا گیا ہے کہ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھلنا چاہیے تاکہ فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت ممکن ہو سکے۔ بیان میں فلسطینی عوام کو انکی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مکمل مخالفت کا اظہار کیا گیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک عرب اہلکار اور مغربی سفارتکار نے بتایا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے قائم اتھارٹی کو ’بورڈ آف پیس‘ کہا جائے گا۔ یہ دو سالہ اور قابلِ تجدید کمیٹی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت کام کرے گی۔

اس ادارے کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، جبکہ مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک کے تقریباً ایک درجن رہنما اس میں شامل ہوں گے۔ ایک کمیٹی فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی جو جنگ کے بعد غزہ کی روزمرہ انتظامیہ سنبھالے گی۔ اس کمیٹی کا اعلان رواں ماہ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی ملاقات کے موقع پر ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں ایک مسلح ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ کی تشکیل بھی شامل ہے جو سیکیورٹی کی ذمہ داری اور حماس کے ہتھیار ڈالنے کو یقینی بنائے گی، جو کہ اسرائیل کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اس اعلان کو ٹرمپ کے غزہ سے متعلق 20 نکاتی منصوبے پر عمل درآمد کی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

حماس کا غزہ کی حکمرانی سے دستبرداری کا عندیہ، ٹیکنوکریٹ حکومت پر اتفاق

عرب اہلکار کے مطابق غزہ میں بین الاقوامی فورس میں شامل ممالک سے بات چیت جاری ہے اور توقع ہے کہ فورس کی تعیناتی 2026 کی پہلی سہ ماہی میں شروع ہو جائے گی۔ ایک امریکی اہلکار نے بھی اسی دورانیے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 2026 کے اوائل میں افواج کی تعیناتی ہوسکتی ہے۔

عرب اہلکار کے مطابق حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر بات چیت‘ فوری طور پر شروع ہوگی، جو خاصی مشکل تصور کی جا رہی ہے۔ ان مذاکرات میں حماس کے تخفیفِ اسلحہ کا مسئلہ خصوصی توجہ کا حامل ہوگا، جس پر حماس نے ابھی تک اتفاق نہیں کیا ہے۔

پلان کے مطابق بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کے ساتھ اسرائیلی افواج کو غزہ کے اس نصف حصے سے نکلنا ہوگا جس پر وہ اب بھی قابض ہے۔

فلسطینیوں پر حملوں میں اضافہ، اسرائیل نے فوجی بجٹ کئی گنا بڑھا دیا

غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مالی وسائل کا تعین تاحال نہیں ہو سکا۔ کچھ فلسطینی حکام کی جانب سے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی آواز کمزور نظر آ رہی ہے اور مستقبل میں ریاست کے قیام کی واضح ضمانت موجود نہیں۔

اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے جبکہ امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ مخصوص شرائط پوری ہونے پر ریاستی عمل کی راہ ممکن ہوسکتی ہے۔

اسرائیل نے بدھ کو اعلان کیا کہ وہ غزہ اور مصر کے درمیان رفح بارڈر کراسنگ چند روز میں دوبارہ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے کی اجازت ملے گی جیسا کہ جنگ بندی میں طے کیا گیا ہے۔ تاہم مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب اور قطر نے اس اعلان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فلسطینی غزہ چھوڑ گئے تو ممکن ہے وہ واپس نہ آسکیں۔ بیان میں فلسطینی عوام کو انکی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مکمل مخالفت کا اظہار کیا گیا ہے۔

مصر کا مؤقف ہے کہ رفح کراسنگ اسی صورت کھلے گی جب آمدورفت دونوں جانب ممکن ہوگی، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اس وقت تک واپس داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جب تک تمام یرغمالیوں کی باقیات غزہ سے واپس نہیں مل جاتیں۔

بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھلنا چاہیے تاکہ فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت ممکن ہو سکے۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

Similar Posts