محمد سلیم آسی … ایک درویش صفت آدمی

سادگی محض ایک اخلاقی صفت نہیں، سادگی ایک مکمل طرزِ حیات ہے۔ سادہ آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنے وقت کو زیادہ مفید طور پر استعمال کرے۔ سادگی کا تعلق ہر چیز سے ہے۔ لباس،کھانا، سواری، مکان، تقریبات وغیرہ۔

ایسی ہی سادگی کا پیکر محمد سلیم آسی تھے، وہ ایک وضع دار، ملنسار، خوش گفتار، عجز و انکسار اور حقیقی معنوں میں درویش صفت آدمی تھے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ سادگی روحانیت کا لباس ہے، سادگی روحانی انسان کا کلچر ہے، سادگی فطرت کا اصول ہے، سادگی سنجیدہ انسان کی روش ہے، سادگی ذمے دارانہ زندگی کی علامت ہے اور سادگی بامقصد انسان کا طرزِ حیات ہے۔

ان کی شخصیت میں سادگی کے یہ تمام رنگ نمایاں جھلکتے تھے، وہ گوجرانوالہ کے آبائی گاؤں باسی والا میں 1951ء میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں ان کے چہرے پر پہلوانوں جیسی صرف مونچھیں تھیں۔ بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی انھوں نے داڑھی رکھ لی۔

انھیں میں نے کبھی ننگے سر نہیں دیکھا بلکہ بڑا سا سفید رومال پگڑی کی طرح سر پر باندھے رکھتے۔ لباس میں انھیں سفید رنگ کا سوٹ بہت پسند تھا، شوق سے شغل فری چائے پیتے۔

میری ان سے پہلی ملاقات بڑے بھائی خواجہ آفتاب عالم اور منفرد لب و لہجے کے شاعر فرزند علی شوقؔ کے آفس فاطمہ جناح چیمبر سیشن کورٹ میں ہوئی۔ جس کے بعد ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ طویل مدت تک جاری رہا۔

ان کے پاس ایک لال رنگ کی چھوٹی سی سائیکل ہُوا کرتی تھی، جس پر وہ اکثر عثمانیہ ریسٹورنٹ گنگنی والا سے دیگر دوستوں سے ملنے آتے۔ ان کی سادہ طبیعت میں بھی ایک خاص قسم کی گرم جوشی کا فقدان موجود تھا۔ غالبؔ کے اس شعر کے مصداق۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

پنجابی زبان وادب کے معروف شاعر محمد سلیم آسی نے میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول تلونڈی موسیٰ خاں سے ۱۹۷۶ء میں کیا۔ بعد ازاں پی ٹی سی کا کورس بھی کیا اور اسکول ٹیچر بھرتی ہوگئے۔ ان کی پہلی تقرری گورنمنٹ اسکول تحصیل حافظ آباد میں ہوئی۔

جہاں سے چھ ماہ بعد ان کی ٹرانسفر چک نظام ضلع گوجرانوالہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ باسی والا کے جس اسکول میں انھوں نے تعلیم حاصل کی اُسی اسکول میں پھر انھوں نے اٹھارہ سال پڑھایا۔ ان کا شمار پاکستان کے ایسے سنیئرز شعرا اور اساتذہ میں ہوتا ہے جن کی شفقت، محبت اور علم سے سیکڑوں لوگ فیض یاب ہوئے۔

ان کی پنجابی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا۔گوجرانوالہ کی ممتاز علمی ادبی شخصیت پروفیسر محمد اکرم رضا کی شاگردی اختیارکرتے ہوئے ان سے باقاعدہ شاعری کی اصلاح لیا کرتے تھے۔ انھوں نے غزلوں کے علاوہ حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی لکھا۔

’’سوہنا دربار‘‘ کے نام سے ان کا نعتیہ مجموعہ منظرِ عام پر آیا جب کہ ان کے پہلے پنجابی شعری مجموعے کا نام ’’ پُھل ونڈن خوشبو‘‘ ہے۔ محمد سلیم آسی نے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ قطع اور چو مصرعے بھی لکھے۔

ان کا زیرِ طبع شعری مجموعہ کا نام ’’اٹ کھڑکا‘‘ تھا جو ان کی وفات کے باعث آج تک نہیں چھپ سکا۔محمد سلیم آسی کے بہت سے پنجابی گیت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے، جن میں سے ایک گیت ’’جھانجھر نوں سمجھا نی کڑیے‘‘ گلوکار آصف جاوید کی آواز میں بہت مقبول ہُوا۔

ریڈیو پاکستان کے ممتاز سنیئر پروڈیوسر ڈاکٹر حسن فاروقی بتاتے ہیں کہ ’’ نوے کی دہائی کی بات ہے جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی، میں نے ریڈیو ۱۹۸۸ء میں ابھی جوائن کیا تھا تقریبا کچھ سال بعد ہی آسی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔

وہ گوجرانوالہ سے خصوصی طور پہ ریڈیو پاکستان لاہورکے ادبی پروگرام ’’رچناب‘‘ میں شرکت کے لیے تشریف لاتے، ہم ان کو بلاتے تھے، وہ ہمارے مہمان شاعر ہوتے اور تقریبا مہینے میں ایک دو دفعہ یا کچھ دیر بعد ان کو بُلایا جاتا کیوں کہ وہ اپنے دورکے معروف شاعر تھے۔

صاحبِ دیوان اورکئی کتب کے خالق تھے۔ جب بھی ان سے کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر سننے کا دیکھنے کا موقع ملا تو ان کی شخصیت میں ایک عجیب سا جادوئی رنگ تھا۔ جو روایتی تصور ہوتا ہے، پنجاب کے باسیوں کا ان میں وہ بالکل رچا بسا تھا اور وہ دیکھنے میں سننے میں اپنی رہتل اپنا کلچر ہے جو ہماری تہذیب ہے، پنجاب کی اُس کے نمایندہ معلوم ہوتے تھے۔ ‘‘

محمد سلیم آسی ریڈیو پاکستان کے علاوہ پاکستان ٹیلی وژن کے پنجابی پروگراموں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ ان کا پنجابی کلام تواتر سے پنجابی رسالہ ’’سانجھاں‘‘ میں پڑھنے کو ملتا۔ پنجابی زبان کے معروف شاعر تنویر ظہور ’’سانجھاں ‘‘ کے مدیر تھے۔

وہ اس حوالے سے اپنے ایک تعزیتی کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’ سلیم آسی جب کبھی ریڈیو پاکستان لاہور میں کسی پروگرام یا مشاعرے کی ریکارڈنگ کے لیے آتے تو مجھے فون پر اطلاع دیتے، اس طرح ہم کبھی ریڈیو کے آفس تو کبھی میرے دولت کدہ پر مل بیٹھتے۔‘‘

محمد سلیم آسی گوجرانوالہ کی ادبی محافل میں بہت کم کم نظر آتے۔ جہاں تک میں نے انھیں دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ دنیا سے خلوت نشیں ہوکر صرف اپنے رب اور اُس کے محبوبؐ کے عشق سے وابستہ ہوگئے۔

انھوں نے اپنے آخری ایام میں غزل کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دیا اور حمد و نعت کہنے کی طرف راغب ہوگئے۔ ان سے کسی نے بھی ملنا ہوتا تو وہ اکثر اوقات اپنے گھر کے سامنے مسجد میں ہاتھ میں تسبیح لیے عبادت میں مصروف دکھائی دیتے۔

انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا اُردو سے کی پھر جب پنجابی شاعری کی طرف آئے تو پھر زندگی بھر اپنی ماں بولی زبان سے ہی رشتہ جوڑے رکھا۔ شہر بھر میں ان کے دوست کم، دشمن زیادہ تھے۔ 

شاید اس لیے کہ وہ ایک صاف گو آدمی تھے وہ اپنے سخت رویے کی وجہ سے مشہور تھے،کیونکہ وہ جھوٹ بولنے اور محفل میں بیٹھے کسی بھی انسان کی تذلیل کرنے،کسی کی جھوٹی تشہیرکرنے کے خلاف تھے، وہ سچ بات سننے اور سچ کو بیان کرنے پر ایمان رکھتے تھے۔ بقول شاعر:

ہر اک شخص سے ہی مری دشمنی تھی

مرے سر کی قیمت ادا کون کرتا

محمد سلیم آسی اپنی بول چال میں اپنی شاعری میں اور اپنے حُسنِ اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے بطور شاعر ادیب پاکستان میں جتنا پنجابی زبان کے لیے کام کیا یقینا وہ سراہے جانے کی قابل ہے۔

میرا خیال ہے کہ ان کی شخصیت پر طالب علمانہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، طالبعلموں کو چاہیے کہ وہ ان پر ان کی شخصیت پر مقالہ لکھیں تاکہ ان کے کلام اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو محفوظ کیا جا سکے۔

ان کا جہانِ ادب کے لیے بہت کنٹریبیوشن ہے۔ جس معیار کے وہ شاعر اور ادیب تھے ان کو ابھی تک ادبی حلقوں میں جائز مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے لیے اور اپنے دیگر سنیئرز قلم کاروں کے لیے کچھ کریں اور ان کا جو حق ہے وہ ان کو ضرور دیں۔ محمد سلیم آسی کی وفات ۲۶ جولائی کو ہوئی جب کہ ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں باسی والا میں ہوئی۔

Similar Posts