ان تمام وجوہات کی طرف جانے سے قبل یہ بات بھی اہم ہے کہ کیونکہ اسرائیل ایک ایسے ناجائز طریقے سے قائم کیا گیا کہ جس میں دوسروں کے وطن پر قبضہ کیا گیا اور اپنے وطن کا اعلان کر کے مقامی لوگوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کیا گیا۔
تاہم یہ ایک ایسا بنیادی خطرہ بن گیا کہ جو ہمیشہ اسرائیل کو یاد دلواتا ہے کہ تمھاری بنیاد ہی غلط ہے اور غلط بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کبھی نہ کبھی تو گرتی ہی ہے، لٰہذا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا سب سے بھیانک اور ڈراؤنا خواب یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسرائیل کو ختم ہونا ہوگا۔
یہی ڈراؤنا خواب حالیہ دنوں میں زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے،کیونکہ سات اکتوبر کے بعد اس وقت ہر صیہونی آباد کار اور خاص طور پر غاصب صیہونی حکومت کا وزیر اعظم نیتن یاہو بھی اس کرب میں مبتلا ہے اور اسرائیل کبھی بھی بے چینی سے نجات نہیں پاسکے گا۔
اسرائیل اور اس کے عہدیداروں کو ہمیشہ ایک مستقل اور وجودی نوعیت کی گھبراہٹ لاحق رہتی ہے یعنی یہ کہ کیا وہ(اسرائیل) یا اس کے عہدیدار باقی رہیں گے؟ یا پھر یہ کہ اسرائیل ختم ہو جائے گا؟کیا سو سال بعد، بیس سال بعد، یا حتیٰ کہ پانچ سال بعد بھی وہ موجود ہوگا یا نہیں؟
یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے جو اندر ہی اندر نیتن یاہوکو بھی کھائے جا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ترقی یافتہ ہے،کس چیز میں ترقی یافتہ ہے؟ اس کے تمام ہتھیار امریکی اور مغربی ممالک سے آئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل تو صرف ایک بہت بڑی چھاؤنی نما مرکز یا خطے میں مغرب کا تیار شدہ فوجی اڈہ ہے۔
اسی وجہ سے وہاں حقیقی ترقی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ حقیقی ترقی تو یہ ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ وہ ایسے علاقے میں زندگی گزار رہا ہے جہاں اسے قبول کیا گیا ہے اور اسے خوش آمدید کہا گیا ہے، لیکن یہاں تو ہر صیہونی آباد کار رات کو اس خوف سے سوتا نہیں ہے کہ کب اسرائیل ختم ہو جائے، یعنی صیہونی آباد کار ایک ڈراؤنے خواب کے ساتھ سوتے ہیں اور ان کی زندگیاں بے چین ہو چکی ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود 1948 میں عمل میں آیا، مگر ابتدا سے ہی یہ غاصب ریاست ایک ایسے ماحول میں وجود میں آئی جسے خود اسرائیلی ماہرین مسلسل عدمِ تحفظ کی فضا کہتے ہیں۔ یہ احساس صرف بیرونی خطرات تک محدود نہیں بلکہ داخلی سیاست، demography، مذہبی اختلافات، عالمی سفارتی تنہائی اور تاریخی محرکات بھی شامل ہیں۔
نتیجتاً اسرائیل کے اندر یہ خدشہ وقتاً فوقتاً ابھرتا جا رہا ہے کہ صیہونیوں کے لیے بنائی گئی یہ غاصب ریاست کسی بھی وقت شدید بحران یا انہدام کی طرف جا سکتی ہے۔صیہونیوں کے لیے یہ ڈراؤنا خواب متعدد وجوہات کی بنا پر ہے جن میں سے اکثر و بیشتر صیہونی رہنماؤں نے خود تشکیل دی ہیں۔
مثال کے طور پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ابتدائی لیڈروں نے ریاستی بقا کے لیے مسلسل خطرے کا بیانیہ تشکیل دیا، جسے فوج، میڈیا اور تعلیمی نظام نے تقویت دی۔ اب یہی خود کا بیانیہ حقیقت کی صورت دھار چکا ہے۔
غاصب صیہونیوں سمیت عہدیداروں اور صیہونی رہنماؤں کے ڈراؤنے خواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک انتہائی محدود رقبے پر قائم ہے، جہاں وسیع آبادی اور کمstrategic depthکے باعث کسی بڑی جنگ میں پورا ملک محاذ بن جاتا ہے۔
اسی لیے اسرائیلی ماہرین اسے پتلے گلے والی بوتل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ جنگ میں بھی دیکھی گئی ہے۔اسی طرح غاصب صیہونی حکومت چونکہ ایک قابض اور ناجائز ریاست ہے تاہم اس کے پڑوس کے ممالک بھی اس کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
اگرچہ امن کے معاہدے کیے گئے ہیں، لیکن فلسطینی تنازعہ حل نہ ہونا، لبنان اور شام کے محاذ اور ایران کے ساتھ کشیدگی سمیت عرب عوام کی شدید مخالفت جیسے عوامل اسرائیل میں یہ خوف بڑھاتے ہیں کہ اگر حالات بگڑ گئے تو بقا مشکل ہو سکتی ہے، لٰہذا اسرائیل کی نابودی کا ڈراؤنا خواب ہرگزرتے دن کے ساتھ ساتھ تقویت اختیارکر رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو پیش آنیوالے طوفان اقصیٰ کے واقعے نے اسرائیلی سوچ کو بنیادی طور پر ہلا دیا ہے۔ طوفان اقصیٰ نے اسرائیل کے سیکیورٹی بھرم کو خاک میں ملا دیا۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ دفاعی نظام، خفیہ ایجنسیاں اور سپر پاور اتحاد اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔
لٰہذا7 اکتوبر نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو مکمل طور پر توڑکر رکھ دیا۔ عالمی سطح پر تنہائی نے بھی اسرائیل کو ایک ڈراؤنے خواب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب اسرائیل کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا پڑ سکتا ہے۔
یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج، امریکا کی نئی نوجوان نسل کی اسرائیل مخالف رائے، اقوامِ متحدہ میں تنقید، عالمی عدالتوں کے مقدمات یہ سب اسرائیل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔ معاشی خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مسلسل جنگوں، ہجرت، سرمایہ کاری کی کمی اور معاشرتی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو کمزورکیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں صیہونی آباد کاروں کا قبرص اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرجانا اس ڈراؤنے خواب کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ صیہونی غاصب ریاست کو ایک نہ ایک دن نابود ہونا ہے۔دنیا یک قطبی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ ایک اور ڈراؤنا خواب ہے۔ امریکا کی کمزور ہوتی طاقت اور چین، روس، ایران، سمیت دیگر ممالک کے نئے کردار اسرائیل کے لیے نئے چیلنجز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت جو غزہ، لبنان، شام، عراق اور یمن میں موجود ہے، اس مزاحمت کے اتحاد نے بھی اسرائیل کے لیے وجودی خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے عہدیداروں اور صیہونی آباد کاروں کا یہ خوف یا اسرائیل کی نابودی کا ڈراؤنا خواب سو فیصد حقیقی ہے اور نظریاتی بھی ہے۔
اسی لیے اسرائیل کے اندر خود ماہرین بارہا کہتے ہیں کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ریاست مستقبل میں کمزور ہو سکتی ہے۔ یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے جو ہمیشہ غاصب صیہونی ریاست کے دل و دماغ میں بے چینی کو جاری رکھے گا۔ یہی فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت اور مزاحمت کی حمایت کرنیوالے اتحادیوں کی کامیابی ہے۔