یہ بد دعائیں عرش کو ہلا دیتی ہیں،کاش کوئی سمجھے۔ پندرہ بیس سال قبل کی بات ہے جب ہمیں ڈپارٹمینٹل اسٹور سے خریداری کرنی تھی، چند قدم کا راستہ پندرہ منٹ میں گزرا، اس کی وجہ اسٹور کے سامنے گندے پانی کا دریا بہہ رہا تھا۔
وہاں پہنچنے کے لیے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تب کہیں مطلوبہ جگہ پر پہنچ سکے۔ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی حکومت کو خیال آیا اور نہ ہی ڈپارٹمینٹل اسٹور کے مالکان اور کارکنان کو کہ موت کو دعوت دیتے ہوئے گٹر کو پاٹ دیں، اگر ان سے کوئی شکایت کرے تو جواب ان کا یہ ہوتا ہے کہ صاحب!
ہم تو کئی بار یہ نیک کام کر چکے ہیں لیکن کیا کریں کہ نشے کے عادی رات کو لے اڑتے ہیں اور پھر صبح اس کو بیچ کر ہلاکت خیز مادہ خرید کر کھاتے پیتے ہیں اور دن بھر کے لیے ٹُن ہو جاتے ہیں۔ پھر بھلا ہمارا کیا قصور ہے؟
معصوم بچے کی عمر فقط تین سال تھی، اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد اور دادا کا جان سے پیارا پوتا، جو گلشن اقبال نیپا چورنگی کے کھلے مین ہول میں اتوار کی شب محض اس لیے گر گیا تھا کہ گٹر کو گتے سے ڈھانپ کر دھوکا دیا گیا تھا، سوچنے کی بات ہے جب ہلکا سا گتا بچے کا وزن برداشت نہیں کر سکا تو بڑے آدمی کو کیسے بچا سکتا تھا۔
جس نے گتے سے پاٹا تھا، پہلے اسے اپنے اوپر تجربہ ضرور کرنا چاہیے تھا کہ اس کا وزن سہار سکتا ہے کہ نہیں؟ یا پھر جس نے مشورہ دیا اور یہ کام کروایا تھا۔
ہم جو سنتے آئے تھے کہ ’’فلاں شخص عقل سے پیدل ہے‘‘ تو جناب اس کی حقیقت اس واقعہ میں سامنے آئی، بالکل اسی طرح جیسے دور تک پھیلی ہوئی آگ پر ایک بوتل پانی ڈال دیا جائے، یقینا یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
ہر حادثے کے بعد حکومت مشینری فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے، یہاں بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گئی جب عوام کو چندہ جمع کرکے مشینری منگوانا پڑی، بچے کی لاش 15 گھنٹے بعد ملی وہ بھی جائے وقوعہ سے آدھا کلو میٹر دور مین ہول سے برآمد ہوئی، اس کارنامے کو انجام دینے والا 15,16 سالہ لڑکا تھا جس نے جائے حادثہ سے دور جا کر تلاش کیا، پانی کی رفتار تیز تھی جو ابراہیم کو بہا کر لے گیا۔
افراتفری اور خود غرضی کے دور میں لاش پر بھی چھینا جھپٹی ہوگئی تاکہ کامیابی کا تمغہ اسے ملے۔ شدید غم کا موقعہ تھا وڈیو بنانے والے شخص نے تالیوں کا مطالبہ کر دیا، اور پھر کیا تالیاں بجنے لگیں۔ بے حس لوگوں! کیا یہ تالیوں کا موقعہ تھا وہ بھی بچے کی لاش پر۔
ایسے ہی دردناک واقعے کے حوالے سے ایک افسانہ میرے ذہن کے دریچے پر دستک دے رہا ہے عنوان ہے ’’مین ہول‘‘ 1995 میں شایع ہونے والی کتاب ’’آج کا انسان‘‘ میں شامل ہے، سن لکھنے کا مقصد اتنا تھا کہ تیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے، حالات جوں کے توں ہیں۔
کل بھی حکمران اتنے ہی بے رحم تھے اور آج بھی انھیں عوام کے مسائل کا ادراک نہیں ہے اور یہ پاکستانی عوام کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔ افسانہ ’’مین ہول‘‘ سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔’’چاچا خیر دین نے نرم نرم گھاس پر اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں پھر ایک انگڑائی لی اور اپنے لاغر جسم کو گھاس کی گود میں ڈال دیا۔
وہ تینوں چاچا کو دیکھ کر مسکرانے لگے، بولے چاچا! لگتا ہے آج پھر طبیعت ٹھیک نہیں ہے، طبیعت تو گزشتہ بارہ تیرہ سال سے ٹھیک نہیں ہے، دیکھ لو پھر بھی جئے جا رہا ہوں، چاچا! انسان اپنی مرضی سے جیتا مرتا نہیں ہے بلکہ قدرت کی طرف سے جینے پر مجبور ہے۔
چاچا ! تمہیں یاد ہے پچھلی جمعرات کو اسی جگہ تم نے ہم سے ہماری زندگی کی کہانیاں سنی تھیں لیکن وعدے کے مطابق آج تیری باری ہے، لمبے اور دبلے پتلے نوجوان نے جس کی عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہیں تھی، فرمائش کی۔
ہاں چاچا ! آج ہم تیری کتھا ضرور سنیں گے۔ پچاس سالہ چاچا عمرو جو پستہ قد اور کمزور جسم کا مالک تھا، نوجوان کی بات کی تائید کی۔
یہ کہانی سنانے کا وقت ہے کیا؟ ابھی سفید کوٹ والے وارڈوں کا دورہ کرتے ہوئے ادھر کو آ نکلیں گے اور پھر سب کی شامت۔
چاچا ! تم فکر نہ کرو، آج جمعرات ہے، وہ سب گپ شپ لڑا رہے ہوں گے، ادھر اب کوئی نہیں آنے والا ہے۔
ہاں چاچا ! بسم اللہ کرو۔ تینوں کے اصرار پر چاچا خیرو نے ہتھیار ڈال دیے۔ چاچا اٹھ کر بیٹھ گیا، ایک دو جمائیاں لیں، پھرکچھ سوچنے لگا، چند لمحوں کے بعد دھیمے لہجے میں بولا، تو سنو ساتھیو! میری کہانی نئی بھی ہے اور پرانی بھی۔ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔
اپنی بھی، پرائی بھی۔ مجھے بلدیہ کے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں، جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں میرا جی کرتا ہے کہ کوئی بھی بلدیہ کے کسی امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب نہ بنائے، پچھلے پچیس سال سے میں نے انتخابات میں کھڑے ہونے والوں کو کبھی ووٹ نہیں دیا اور نہ دوں گا، ’’نہ‘‘ کہتے ہوئے چاچا نے مکا بنا کر گھاس پر زور سے مارا۔
لیکن چاچا! تم تو کہانی سنا رہے تھے۔ تیسرے درمیانے قد والے نے کھانستے ہوئے کہا، یہ بلدیہ کا ادارہ کہاں سے آگیا؟
میری کہانی کا مرکزی کردار بلدیہ کا ادارہ ہی تو ہے، اگر اپنی کہانی سے ’’بلدیہ‘‘ کو نکال دوں تو کہانی کے سب رنگ پھیکے رہ جائیں گے۔ ٹھیک ہے چاچا! تم آگے بڑھو۔ دبلے پتلے نوجوان نے کہا اور اپنا سینہ دبانے لگا، اس کے ساتھ ہی طویل کھانسی اس کے گلے پڑ گئی۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مجھے نفرت ہے بلدیہ کے عہدیداروں سے، سب کے سب ہڈ حرام ہیں، مفت کی کھاتے ہیں، کبھی انھوں نے غریب کا خیال نہیں کیا، سڑکیں اور پارک امیروں کے علاقے میں بنواتے ہیں یا ان شاہراہوں کو سنوارنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں جہاں سے بڑی بڑی ملکی اور غیر ملکی شخصیات کا گزر ہوتا ہے، اسکول اور دواخانے غریبوں کے علاقوں میں کھول تو دیتے ہیں لیکن دوائیں غائب، عملہ چور اور اسکولوں میں پڑھائی کا فقدان۔
اور ’’مین ہول‘‘ چاچا نے گہرا سانس لیا۔ چاچا پھر بہک گیا، میں ہرگز نہیں بہکا۔ ساتھیوں کی سرگوشی اس نے سن لی تھی۔ ٹھیک ہے چاچا! اب ہم میں سے کوئی نہیں بولے گا۔ نوجوان کی کھانسی نے اسے ادھ موا کر دیا تھا اور اب وہ رومال منہ میں ٹھونس کر بیٹھ گیا تھا۔
جس لڑکی سے میری شادی ہوئی وہ بہت حسین تھی لیکن اماں نے چند سالوں کے بعد ہی اسے بانجھ کہنا شروع کردیا، لیکن قدرت کے کام بھی بڑے نرالے ہوتے ہیں، اس سے پہلے کہ اماں مجھے زیادہ مجبور کرتیں کہ میں اسے طلاق دے کر دوسری شادی کر لوں انھی دنوں ہمارے یہاں خوشخبری آگئی اور وہ دن بھی آ گیا جب ہمارے گھر میں آسمان سے ستارے اتر آئے تھے۔
پوری دنیا کے پھول ہمارے گھر کی دیواروں پر کھل رہے تھے، ہوائیں گیت سنا رہی تھیں، خوشیوں کے گیت، کامیابیوں کے سنہرے رنگ۔جب ہماری بیٹی چار سال کی ہوئی تو ہم نے اسے اسکول میں داخل کرانے کے بارے میں سوچا، ایک دن میں نے دفترکی چھٹی کی، میری بیوی رضیہ نے اسے نہلا دھلا کر تیار کرا دیا، وہ کاندھے پر بستہ ڈالے کمرے سے صحن میں اور صحن سے گلی میں اٹھلاتی پھر رہی تھی، بلدیہ کے غیر ذمے دارانہ افسران اور ’’مین ہول‘‘ چاچا؟ مین ہول سے باہر آ جاؤ، ان میں سے ایک مدقوق شخص بولا۔
مین ہول سے میں زندگی بھر نہیں نکل سکتا ہوں۔ چاچا کافی جذباتی ہو گیا تھا، چہرہ سرخ اور آنکھیں چڑھ گئی تھیں، ہاتھ پیر مڑنے لگے تھے جلد ہی اس نے اپنی حالت پر قابو پا لیا۔ جانتے ہو کھلے مین ہول میں میری اکلوتی شہزادی گر گئی تھی وہ بہت دور چلی گئی تھی، آج تک اس کی راہ تک رہا ہوں، پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
کل اور آج یکساں ہے فرق ہے تو اتنا غریب کو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اس سے حکومت نے جینے کا حق چھین لیا ہے وہ محنت مزدوری کرنے کے باوجود بھوکا، پیاسا اور تفکر کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے حق میں بولنے والے ذرا اتنا تو سوچیں کہ انھوں نے صوبوں کے مکمل حقوق پر قابض ہو کر اپنے عوام کو سوائے آنسوؤں اور مفلوک الحالی کے سوا کیا دیا ہے۔