ستائیسویں ترمیم کے بعد

آئین میں ستائیسویں ترمیم ضرور ہوئی ہے لیکن اس ترمیم کے پیچھے وجوہات سیاسی ہیں اور ان سیاسی وجوہات کے پہلو سماجی اور تاریخی ہیں۔ یہ ترمیم سیاسی طور پر آخری دیوار ہے، اس کے بعد اٹھائیسویں ترمیم لائی تو جاسکتی ہے مگر وہ ملک کے لیے بہت بڑے بحران کا سبب ہوگی۔

اٹھائیسویں ترمیم کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو آن بورڈ لے کر صوبوں کی تقسیم۔ جس کے لیے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے SIUT کی افتتاحی تقریر میں یہ واضح کردیا ہے کہ وہ این ایف سی کو رول بیک نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی اٹھائیسویں ترمیم کی تائیدکریں گے بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسا ہونے کو سختی سے روکیں گے۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے خلاف تمام سیاسی پارٹیوں کو تحریک یا پھر بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔

حکومت اور پیپلز پارٹی کو جس طرح سے تعاون ملنا چاہیے تھا، اس طرح سے کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور اس کے لیے اگر حکومت چلی جائے تو شاید اس کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔

اس وقت مسلم لیگ (ن) کو لیڈ شہباز شریف نہیں، بلکہ نواز شریف کر رہے ہیں، یعنی ہائبرڈ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اس سارے بگاڑ میں کون زیادہ ملوث ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ بہت جلدی تھی کہ حکومت کے پسِ پردہ چیزوں کو چلایا جا رہا تھا۔

بہت سے ٹکراؤ اور اختلافات منظرِ عام پر آگئے۔ افغان پالیسی اور ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پرستی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا حکومت کے پیچھے کھڑا ہونا خوش آیند بات ہے بلکہ حوصلہ افزاء ہے۔

مئی کے مہینے میں جو اس ملک کا وقار بلند ہوا، اٹھہتر سالوں میں یہ پہلا معرکہ تھا، ہندوستان کے ساتھ جس میں ہندوستان کو منہ کی کھانی پڑی اور اس کا کریڈٹ یقیناً ہماری افواج، جنرل عاصم منیر اور خاص کر ہمارے شاہینوں کو جاتا ہے، مگر اس کے بعد تقریباً چھ مہینوں کے بعد آج ہم یہاں کھڑے ہوئے ہیں، جہاں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی اپنی مزاحمت کی سیاست ملک کی بہتری میں نہیں اور وہ بھی یہ موقعہ اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دے گی۔آج کے ہائبرڈ نظام میںجو بیٹھے ہوئے ہیں وہ ہماری جمہوری قوتیں ہیں۔

 یہ ہائبرڈ نظام بانی پی ٹی آئی سے شروع کیا گیا۔ پی ٹی آئی کو مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا ٹولز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ پھر خان صاحب نے ملک کی معیشت کا کہاں پہنچایا، ہم سب ان حقائق سے واقف ہیں۔

ملک کو اس حال تک پہنچانے میں پی ٹی آئی دور کی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ سانحہ 1971 کے سانحے سے کم تھا مگر ایک سانحہ ضرور ہے۔ یہ خوش قسمتی تھی اس حکومت اور موجودہ ہائبرڈ نظام کی کہ یہ ملک ان بحرانوں سے نکل آیا، معیشت کو، ہماری کرنسی کو، افراطِ زرکو اور سود کی شرح کو واپس مستحکم کیا۔

آنے والا بحران، ایک لحاظ سے سیاسی بحران نہیں، یہ سب ٹھیک چلے گا، ہائبرڈ جمہوریت اب ایک مرتبہ پھر رول بیک تو نہیں ہو رہی ہے لیکن اس طرح سے چل بھی نہیں پائے گی۔ بات ’’ کچھ دو اور لو‘‘ تک آگئی ہے، یعنی سول اور ملٹری تعلقات یقیناً اب درستگی یا پھر Technical correction مانگ رہا ہے، اگر صورتحال ٹکراؤ کی طرف چل پڑی اور مفاہمت نہ ہو پائی تو یہ ایک تحریک کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے اور پھر اس تحریک میں کوئی بھی آ سکتا ہے۔

یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ اب فرنٹ فٹ پر شہباز شریف نہیں بلکہ نواز شریف آئے ہیں اور شہباز شریف اب کسی اورکا نہیں، اپنے بڑے بھائی کا کہنا مان رہے ہیں۔ یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ ایک صفحے پر ہونے کا تاثر بھی مدھم پڑ رہا ہے لیکن اس طرح نہیں جیسا کہ ماضی میں کیا جاتا تھا۔ 

یعنی نواز شریف کو آرٹیکل 58(2)(b) کے ذریعے نکالنا ہے تو بے نظیر کو لے آئیں اور اگر بے نظیرنے بات نہیں مانی تو بے نظیر کو نکال کر نواز شریف کو لے آئیں۔ اب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو ایک ساتھ کر کے مسلم لیگ (ن) کو سائڈ لائن کرنے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔

یہ جو سیاسی بحرا ن آ رہے ہیں، اس کی فالٹ لائن ہماری تاریخ میں موجود ہے۔ اس مضمون میں میں ہم اس کی گہرائی میں نہیں جاتے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام کسی بھی غیر جمہوری قوت کے ساتھ کھڑے نہیں ہوںگے۔

اس وقت چاہے ہائبرڈ جمہوریت ہو اور چاہے کتنے ہی سمجھوتے، پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی نے کیوں نہ کیے ہوں، لیکن وہ عمران خان کی طرح غیر جمہوری قوت پھر بھی نہیں۔ جو معذور سیاسی قیادت ہے اور ان کو اب بہت سستے میں اپنا دامن صاف کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

یہ ٹکراؤ بڑھنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ٹکراؤ کسی بھی شکل کا ہو، اگر یہ اندرون ملک ہے تو اس سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ملک سب کے لیے اہم ہے۔ ادارے ہونے چاہئیں، فرد نہیں۔ اس لیے بیچ کا راستہ نکلنا چاہیے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ادارے اہم ہیں یا پھر فرد۔

اس جمہوریت کو اس حال تک پہنچانے میں ہماری کمزور جمہوری قوتوں کا سب سے بڑا کردار ہے۔ سترہ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا، ان سالوں میں کہ جمہوری اداروں کو مضبوطی نصیب ہوئی ہو۔

اس کے برعکس جو بری حکمرانی کی مثالیں قائم کی ہیں، وہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس پارٹی میں جیالوں اورکارکنوں کا دور تمام ہوا، اب اس پارٹی میں وڈیروں اور پیروں کا غلبہ ہے۔

اس خلاء کو صرف جمہوری قوتیں ہی پرکریں گی اور یہی وقت ہے کہ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے جو جناح کے اس ملک سے مخلص ہیں، ان کو سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ایسا ہوگا کہ جو ملک چند سالوں کے لیے بحران سے نکل آیا تھا، وہ واپس اسی بھنور میں پھنس سکتا ہے۔

Similar Posts