ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی خدمت میں

پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی نے جہاں وفاق کے لیے وسائل کے مسائل بڑھا دیے ہیں، وہاں اس صورت حال نے صوبوں کے انتظامی معاملات میں مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اب ہر صوبے کو دو یا تین یونٹوں میں تقسیم کرنے کی بات زور پکڑتی جا رہی ہے۔

آبادی میں اضافے اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی کی وجہ سے چند سال قبل پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ نئے صوبے کی تشکیل کے سلسلے میں کافی پیش رفت بھی ہوئی تھی مگر پھر حکومت بدل گئی اور نئے صوبے کا مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا۔

اسی طرح خیبرپختونخوا میں صوبہ ہزارہ بنانے کا معاملہ بھی کافی آگے بڑھ گیا تھا مگر پھر اس کا معاملہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ صوبہ بلوچستان میں پشتو بولنے والوں کا اور بلوچ دو صوبے بنانے کے کافی لوگ حامی ہیں مگر وہاں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے یہ معاملہ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا، صوبہ سندھ میں ایک نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کافی پرانا ہے۔

اس وقت آبادی میں اضافے کی وجہ سے تمام صوبوں میں انتظامی معاملات میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، اسی لیے نئے صوبے بنانے کا موضوع زیر بحث ہے۔

سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ نے نئے صوبے کی بحث پر اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے، وقت اور حالات کے مطابق یہ مطالبہ کبھی شدید اورکبھی نرم پڑتا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ملیر کراچی میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ جب انتظامی معاملات کی وجہ سے کراچی تقسیم ہو سکتا ہے تو صوبہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کی بات بھی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی پہلے ہی سات انتظامی یونٹس میں تقسیم ہے تو پھر سندھ کے چھ ڈویژن کیوں نہیں بن سکتے؟ دوسری جانب سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی میں سندھ کو تقسیم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

انھوں نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ سندھ کی تقسیم اور نئے صوبے کی تشکیل کی بات ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے نکال دیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ 27 ویں ترمیم میں لایا جانے والا تھا مگر اسے رد کر دیا گیا۔

اس بیان سے قبل مراد علی شاہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ذرا بھی پریشان نہیں ہیں اور کسی کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ہم میں سے کوئی راضی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ اور پاکستان کے مفاد کے خلاف کسی بھی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔ 

اب جہاں تک سندھ کی تقسیم یا نئے صوبے کے بنانے کا سوال ہے تو شاید کبھی بھی کسی کے ذہن میں نہ آتا اگر صوبے میں شہری علاقوں میں مسائل شدت اختیار نہ کر جاتے، شہری علاقوں کو نظرانداز کیا گیا جس سے شہروں کے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔

کاش کہ سندھ حکومت دیہی اور شہری علاقوں میں ترقی کے حوالے سے مثالی کردار ادا کرتی ۔ ہوا یہ ہے کہ شہری علاقوں میں تعلیم، ملازمت اور بجٹ (NFC) کی تقسیم میں مسائل کا سامنا ہے۔ مردم شماری پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ شہری عوام کو ملازمتوں میں کم سے کم کوٹہ ملتا ہے۔ ان وجوہات اور شہروں میں سڑکوں، پانی اور نکاسی آب کے مسائل نے شہری عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم گوکہ لسانیت کی بنیاد پر قائم ہوئی مگر اس کے قیام سے قبل سندھ میں کئی بھی کئی قوم پرست سیاسی پارٹیاں موجود تھیں۔

ایم کیو ایم نے اپنے قیام کے وقت سے ہی مہاجروں کو حقوق دلانے کا نعرہ لگایا جس سے مہاجروں میں اسے پذیرائی ملی۔ یہ پارٹی مہاجروں کے ووٹوں سے کئی دفعہ حکومت کا حصہ بن چکی ہے مگر بدقسمتی سے اپنے وعدے ایفا کرنے میں کامیاب نہیں رہی ہے۔

گزشتہ دور میں یہ پارٹی کچھ نہ کر سکی تو تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی وجہ قیادت کی غیر سنجیدگی تھی۔ تاہم اب حالات بدلنے کے بعد اس پارٹی کی سب کے ساتھ مل کر چلنے والی پالیسی نے اسے بہت مقبول بنا دیا ہے۔

اس وقت سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان، ہندکووال کے علاوہ کشمیری بھی اس کے ممبر ہیں کیونکہ یہ مہاجر سمیت تمام صوبوں کے مظلوم عوام کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی مظلوم لوگوں کی داد رسی کا ہی نتیجہ ہے کہ ماضی میں یہ آزاد کشمیر اسمبلی کی دو نشستیں جیت چکی ہے۔ ایم کیو ایم کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کی سب سے بڑی علم بردار ہے۔ 

پیپلز پارٹی بھی ایک عوامی پارٹی کے طور پر ابھری ہے، یہ بھی معاشرے کے ہر طبقے کی ترجمان ہے مگر نچلے درجے کے عوام کے لیے اس کی خدمات بے مثال ہیں۔ صوبہ سندھ پیپلز پارٹی کا گؑڑھ صوبہ ہے۔

اس صوبے کے عوام کے حقوق کا خیال کرنا اولین فریضہ ہے مگر شہری علاقوں کے مسائل سے اس کی عدم دلچسپی سمجھ سے باہر ہے۔ اسے سندھ کے دیہی اور شہری عوام کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی ماضی میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ کی حکومت چلاتی رہی ہے، اس وقت بھی دونوں پارٹیاں وفاقی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہیں۔

ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی سے بہت سی شکایتیں ہیں، وہ چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے شہری عوام کا بھی خیال کرے اور ان کی شکایتوں کا ازالہ کرے، پیپلز پارٹی کو شہری علاقوں سے لاتعلقی اختیار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ پیپلز پارٹی کے حامی لوگ بھی شہروں میں مایوسی اور غربت کا شکار ہیں، اگر یہ دونوں پارٹیاں سندھ کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں تو یقینا دیہی اور شہری کی تفریق ختم ہو سکتی ہے۔

بہرحال اب اس وقت جب کہ بھارت کی ہندو انتہاپسند حکومت سندھ پر نظریں جمائے بیٹھی ہے اور اس کا ایک وزیر سندھ کو بھارت سے ملانے کی بات کر رہا ہے تو دونوں پارٹیوں کو خبردار ہونا چاہیے اور اپنے اتحاد سے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تیار رہنا چاہیے،کیونکہ دونوں کی سیاست کا منبع سندھ ہے۔
 

Similar Posts