اسی احترام کا نتیجہ تھا کہ ماضی میں جب اساتذہ کو دوسرے پیشوں کے مقابلے میں کم مشاہرے پر خدمات انجام دینا پڑتی تھیں تو اساتذہ اسے بخوشی گوارا کر لیا کرتے تھے کہ بلا سے پیٹ بھرے یا نہ بھرے عزت تو میسر آتی ہے کوئی زبان دراز تو نہیں ہوتی ،کسی کی پیشانی کے بل تو دیکھنا نہیں پڑتے، اساتذہ اپنی عزت کے ساتھ تنگ دستی میں بھی خوش باش رہتے تھے۔
پھر یہ بھی ہوا کہ حکومتی سطح پر تمام قسم اور ہر کیڈر کے ملازمین کے لیے یکساں مشاہرے اور پے اسکیل رائج ہو گئے اور اساتذہ کو بھی دوسرے پیشے کے لوگوں سے ہم آہنگ معاوضہ ملنے لگا اور ایک طرح ان کی معاشی عزت بھی بحال ہوئی۔
مگر ہوا یہ کہ تعلیم کے عام ہونے کے سبب تعلیمی ادارے کھلتے اور علمی سہولتیں فراہم کرتے گئے مگر تعلیم کے اس فروغ نے ایک بار پھر اساتذہ کو تنگ دستی سے آشنا کر دیا۔ ہوا یہ کہ تعلیم کو ایک انڈسٹری بنا لیا گیا۔ اب عقل و خرد کی دولت سے مالا مال حضرات نے اپنی خوشحالی کے لیے تعلیم کا دامن تھام لیا۔ کسی قدر سرمایہ فراہم کرکے کرایہ کا اچھا دو تین منزلہ مکان حاصل کیا۔
اس میں فرنیچر ڈالا اور اسکول کھول لیا۔ اسکول دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا گیا مگر اس ساری ترقی میں مارا گیا بے چارہ استاد۔ کیونکہ اسکول پر خرچ کیے جانے والے اخراجات اور ’’مالک اسکول‘‘ کے گھریلو مصارف، جو قابل رشک ہوتے ہیں پورے کرنے کے لیے نزلہ عضو ضعیف ہی پر گرا کہ اسکول کی عمارت بھی اچھی، نصابی کتابیں بھی مہنگی، جو مقررہ دکان سے حاصل کی جا سکتی ہیں اور اس دکان کا تعلق بھی اتفاق سے اسکول ہی سے ہوتا ہے۔
اسکول کی فیس بھی اتنی کہ اسکول ’’معیاری‘‘ سمجھا جائے۔ مگر استاد کی تنخواہ ناقابل یقین حد تک قابل رحم۔ شاید اس وقت سرکاری گریڈ کے مطابق گریڈ 1 کے ملازم جو چپراسی، چوکیدار وغیرہ ہوتے ہیں کی تنخواہ 5 ہزار سے زائد ہے۔ بعض نجی اسکولوں میں جو گلی محلوں میں کھلے ہوئے ہیں ٹیچر کی تنخواہ اتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ نجی اسکول اپنے مالک کی خوش حالی میں اضافہ کرنے کے علاوہ کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے سوائے اس کے کہ اگر یہ بھی نہ ہوتے تو کراچی جیسے شہر میں ابتدائی تعلیم بھی عنقا ہو کر رہ جاتی اور شاید یہی ان اسکولوں کے وجود کا جواز بھی ہے۔
یہ تو اسکول سطح کے ’’غیر فیشن ایبل‘‘ اسکولوں کا حال ہے۔ اعلیٰ سطح کے نجی اسکول ’’اعلیٰ سطح کی فیسوں‘‘ مہنگی غیر ملکی کتابوں، انگریزی زبان سے آشنائی وغیرہ کے سبب تعلیمی مصارف کی اس انتہا پر فائز ہیں جہاں تک رسائی میں عام آدمی کے پَر جلتے ہیں۔
تعلیم اور معلم کی یہ رسوائی اب ’’اسکول ایجوکیشن‘‘ سے بڑھ کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی ہے۔ اب یونیورسٹی سطح تک تعلیم ’’نجی‘‘ سیکٹر میں آ چکی ہے۔ وضع وضع کی ہر قسم کی تعلیم کی یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں، اب یونیورسٹی جامعہ نہیں رہ گئی بلکہ جس طرح طب کی دنیا میں ناخن کا الگ، گھٹنے کا الگ، پیٹ کا الگ، گردے کا الگ علی الاہٰذالقیاس اسی طرح جامعات بھی ’’یک فنی‘‘ اور ’’کثیر الشاخ‘‘ جامعات میں تبدیل ہو گئی ہیں اور اب ان جامعات میں تدریسی مصارف ’’بین الاقوامی‘‘ معیار کے مطابق ہیں۔
تعلیم کی اس گرم بازاری میں سرکاری جامعات کا جو حشر ہوا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ کراچی کی نہایت معتبر جامعات اپنے ملازمین کو تنخواہ تک بروقت نہیں دے پاتیں۔ اس ابتری کا سبب معلوم نہیں کیا ہے۔ سرکار گرانٹ بھی دیتی ہے، ان سرکاری جامعات نے اپنی فیس بھی خاصی بڑھا دی ہے کہ انھیں غربت و فنڈز کی کمی کا طعنہ نہ دیا جائے مگر ان جامعات کے اساتذہ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔سب سے زیادہ ناگفتہ بہ حالت سبکدوش ملازمین کی ہے۔
پنشن کا رواج اس لیے پڑا تھا کہ ایک شخص تقریباً 30 سال اپنی بہترین ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو صرف کرکے ملکی، تعلیمی فرائض انجام دیتا ہے اس کی اس جاں فشانی کے اعتراف میں سبکدوشی کے بعد اسے ایک فارمولے کے تحت پنشن دی جاتی ہے مگر یہ پنشن اب خدمات کا اعتراف نہیں صدقہ و خیرات بن کر رہ گئی ہے۔یہ فرض کر لیا گیا ہے ملازم ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ اب اس کی تمام ذمے داریاں ختم ہو گئیں نہ اسے کھانے کی ضرورت نہ کپڑے کی، علاج جو اس عمر میں دو گنا چو گنا بڑھ جاتا ہے اس کی ضرورت نہیں، بس اب پنشنر کو جب اور جس طرح آپ چاہیں پنشن ادا کریں ورنہ وہ اپنے مقدر کو روتا رہے۔
ہر پہلی تاریخ اخبار والا، پانی والا، دودھ والا اور نہ جانے کون کون والا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو پیسہ دیا جائے۔ اب اگر اس سے کہا جائے کہ ابھی پنشن نہیں ملی تو وہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور آپ اپنی پیشانی پر دروغ گوئی کے جھوٹے نشان کو لیے پھرتے رہیے۔
استاد کی جو عزت تھی وہ یوں مٹی میں ملتی رہتی ہے اور یہ سارے لوگ اور وہ ساری ضروریات جو زندگی سے وابستہ ہیں آپ کو پریشان کرتی رہتی ہیں۔ نہ اس ذلت سے بچنے کی کوئی سبیل ہے نہ اس ظلم کی کوئی داد رسی ہے۔ یہ معاشرہ اب ہر بامعنی سرگرمی سے عاری ہو چکا ہے۔