رومن سلطنت کیسے برباد ہوئی تھی؟

رومن ایمپائر بارہ سو برس تک قائم رہی۔ آج تک‘ کوئی بھی ریاست‘ کرہ ارض پر اتنے طویل عرصے تک زندہ نہیں رہی۔ رومن سلطنت کا رقبہ بھی محیر العقول تھا۔ عروج کے زمانے میں بیس ملین مربع میل پر محیط تھی۔ انسانی تاریخ کا جائزہ لیاجائے‘ تو اس سلطنت کے انمٹ نقوش آج بھی قائم ہیں۔ درالحکومت تو روم ہی تھا۔ جسے دنیا کا بہترین شہر بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے۔ فوج اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی اس کی طاقت کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ کوئی ملک عسکری لحاظ سے رومن سپاہ کا مقابلہ نہیں کر پاتا تھا۔

روم جانے کااتفاق ہو تو پانی کو عام شہریوں تک پہنچانے کا قدیم نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔ حیرت انگیز امریہ ہے‘ کہ پینے کے پانی کو زمین سے دس بارہ فٹ اوپر پتھر سے بنے ہوئے پائپوں کے ذریعے ترسیل کیا جاتا تھا جو اوپر سے کھلے ہوتے تھے۔ عام آدمی کے نہانے کے لیے‘ گرم پانی کے حمام موجود تھے۔ بازار اور مارکیٹس میں ہر نعمت موجود تھی۔بندرگاہوں پر ‘ بحری جہازوں کا ہجوم ہر وقت موجود رہتا تھا۔

دولت کی فراوانی تھی۔ بادشاہ تو خیر دور کی بات‘ امراء کے محلات اور ان کی سجاوٹ خیرہ کن تھی۔ مگر یہاں سوال ضرور اٹھتا ہے کہ دنیا کی عظیم ترین سلطنت ‘ برباد کیسے ہوئی؟اس کا نام ونشان کیسے مٹ گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں ‘ جن پر سوچنا ضروری ہے۔ اس لیے بھی کہ ہمیں معلوم ہو کہ ریاستیں کس طرح ختم ہوتی ہیں؟ زوال کی کیا نشانیاں دکھائی پڑتی ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ بربادی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔

متعدد اور متضاد معاملات ہیں ۔ اہم ترین وجوہات کو سامنے رکھنا لازم ہے۔ بڑی وجہ‘ بادشاہوں اور عوام کے درمیان مکمل دوری تھی۔ شہنشاہ کو عوامی مسائل اور غصہ کا علم ہوتا بھی تھا تو اسے طاقت سے کچلنے کا سفاک کھیل کھیلا جاتا تھا۔ جس سے شہری‘ تھوڑی مدت کے لیے ڈر تو جاتے تھے۔ مگر مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا تھا بلکہ بڑھتا جاتا تھا۔ کیلی گلا‘ نیرو کو تو لوگ جانتے ہیں۔ مگر جس بدقماش شہنشاہ نے روم کو عملی طور پر اجاڑ کر رکھ دیا اس کا نام Epagabalusتھا۔ معاشی‘ جسمانی‘ حکومتی اور سیاسی کرپشن کی جتنی سرپرستی اس کے دور میں ہوئی۔ اسے بیان کرنا بھی ناممکن ہے۔انجام بھی وہی تھا جو اس طرح کے حکمرانوں کا ہوتا ہے۔

حفاظتی عملہ نے ہی ‘ گردن کاٹ کر رکھ دی۔ اس کے باوجود جس منفی ڈگر پر وہ ریاست کو دھکیل گیا تھا، وہ ظلم ‘ اپنی جگہ زندہ رہا۔ رومن سلطنت میں کرپشن کا یہ عالم تھا‘ کہ سرکاری عمال سرعام‘ لوگوں سے رشوت وصول کرتے تھے۔ ایک بدقسمت لمحہ تو وہ بھی آیا تھا ، جب ابتلاء کے عروج پر شہنشاہ کے عہدے کی بھی نیلامی شروع ہو چکی تھی۔ رومن فوج کا’’ سپہ سالار یہ نیلامی سرعام ‘‘ بڑے دھڑلے سے کرتا تھا۔

اشرافیہ تو خیر لوٹ مار میں پاگل ہو چکی تھی۔ انھیں دل ہی دل میں بگڑتے ہوئے حالات کا اندازہ تھا۔ حل وہی نکالا گیا‘ جو ازل سے انسانی تاریخ میں کالے دھبوں کے ساتھ لکھا گیا ہے۔عوام کو ہر طرح سے ختم کر کے‘ رومن اشرافیہ‘ اپنے مال کو سمیٹ کر ‘ ان خطوں کی جانب جانے لگی جو پرامن تھے۔ جہاں وہ اپنی ناجائز دولت سے تمام آسائش پیہم خرید سکتے تھے۔ Ugo Bevdi نے آخری رومن دور کی اشرافیہ پر ایک سنجیدہ تحریر قلم بند کی ہے۔ جس سے اس وقت کے رجحانات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

مثال دینا چاہوں گا۔ Rutilius Namatianus ‘ شہنشاہ کا نائب تھا۔ جب اسے اندازہ ہوا کہ اب روم تقریباً ختم ہونے کے نزدیک ہے۔ تو اپنی ساری دولت جمع کی ‘ سیکڑوں کی تعداد میں غلاموں کو ساتھ لیا۔ ماتحت سپاہیوں کو زاد راہ دے کر محفوظ علاقوں کی طرف نکل پڑا۔ اپنے سفر پر ایک طویل نظم بھی تحریر کی جس کا نام De Reditu Suoتھا۔ ترجمہ’’واپسی‘‘ ہے۔ یہ 416ء کا ذکر ہے۔ روسیلس ایک حد درجہ دروغ گو انسان تھا۔ عوام کو یہی بتایا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے بلکہ تبدیلی آب و ہوا کے لیے‘ فرانس کے خوبصورت علاقے میں جا رہا ہے۔

بہت جلد واپس آ جائے گا۔ مگر وہ کبھی بھی واپس آنے کے لیے نہیں جا رہا تھا۔ نظم میں درج ہے کہ روم کی مشکلات وقتی ہیں اور یہ بہت جلد درست ہو جائیں گی۔ دراصل ‘ وہ اپنے الفاظ سے لوگوں کو بے وقوف بنا رہا تھا۔ اس کی نظم میں عجیب بات اور بھی تھی۔ اپنے ملک کے بدترین حالات کا ذکر تک نہیں کرتا۔ بلکہ انھیں کوئی اہمیت تک نہیں دیتا۔ سلطنت کے خاتمہ کے وقت‘ وہ بدقماش انسان‘ بڑے سکون سے فرانس میں پرتعیش زندگی گزار رہا تھا۔ معاملہ صرف نائبین تک محدود نہیں رہتا۔ رومن بادشاہ Honorius دارالحکومت چھوڑ کر Ravenna منتقل ہو جاتا ہے۔ شہر کے اردگرد‘ پانی ہی پانی تھا اور وہ ہر لحاظ سے عوامی غضب سے محفوظ دکھائی دیتا تھا۔

فرارہونے کے باوجود‘ بادشاہ اس قدر ڈرا ہوا تھا کہ شہر کے ساتھ بندرگاہ پر دس بحری جہاز‘ ہر دم ‘ کھڑے کیے ہوئے تھے تاکہ ایمرجنسی میں فرار ہو کر کسی اور ملک جایا جا سکے۔ ہونورپس کے ساتھ‘ اس کی دولت‘ غلام اور اہل خانہ بھی تھے۔ ذرا سوچیے ‘ کہ حکمران‘ اپنی عظیم سلطنت کے معاملات کو درست کرنے کے بجائے‘ مال پانی لے کر محفوظ مقامات پر جانے کو ترجیح دے رہے تھے۔شاید آج ہمارے بالائی طبقے کابالکل یہی حال ہے۔مگر نتیجہ کیا ہوا؟ سب کو معلوم ہے۔ 476میں جرمن جنگجو Odoacer نے روم پر قبضہ کر لیا۔ اور آخری بادشاہ Romulus Augustulusکو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کرپشن‘ اشرافیہ کی غداری اور لالچ کی نذر ہو گئی۔ آج اس ریاست کے خدوخال بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ بس شہر روم میں مجسمے ‘ اجڑے ہوئے محلات اور ابتر کلوسیم ‘ چیخ چیخ کر دھائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ریاستیں کیسے ختم ہوتی ہیں۔ بلکہ کیسے گرد میں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتی ہیں۔

روم کے آخری دور کے حالات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔آنے والے وقت پر دلیل سے بات بھی کی جا سکتی ہے۔ اسے Analogical Deduction کہنا چاہیے۔ ہمارا ملک‘ دنیا کے نقشہ پر ایک پر شکوہ اور عظیم لحاظ سے وجود میں آیا تھا۔ امید اور خوابوں سے لبریز یہ ملک‘ مسلمانوں کے لیے ایسا باکمال موقع تھا جس کی مثال دیکھنے کو بہت کم ہی ملتی ہے۔ مگر حد درجہ قلیل عرصہ کے اندر ہی ‘ ایسی محلاتی سازشوں نے جنم لیا جو آج تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ لیاقت علی خان وہ آخری وزیراعظم تھے‘ جنھیں قائداعظم کے احکامات کا پاس تھا۔ جن کی تربیت‘ ایک نائب کے طور پر بذات خود جناح صاحب نے کی تھی۔ جو کرنال کے پیدائشی نواب تھے۔ مگر اپنے نئے ملک پر سب کچھ وار کر‘ حد درجہ معاشی نقصان اٹھانے پر بھی اف نہیں کرتے تھے۔

انھیں ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا۔افغان قاتل کے اہل خانہ کو مرتے دم تک تحفظ دیا گیا۔ خیر اب تو اس پر قاتل کے بیٹے نے کتاب میں سب کچھ کھل کر لکھ ڈالا ہے۔ لیاقت علی خان کے بعد‘ جو ناپاک کھیل شروع ہوا ہے۔ اس پر آج تک کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ آج جب کوئی وزیر موجودہ ہائی برڈ نظام کا اطمینان سے ذکر کرتا ہے تو وہ ہمارے ملک کی تاریخ سے لا علمی کا اعتراف بھی ہے۔

سیاسی اورسویلین بالا دستی تو لیاقت علی خان کے ساتھ ہی مٹی میں دفن ہو گئی تھی۔ ریاستی اداروں اور بے اصول سیاست دانوں کا ناپاک گٹھ جوڑ تو 1951 ہی سے وجود میں آ چکا تھا۔ توسیع در توسیع پانے والا‘ جنرل ایوب سیاست دانوں کی جڑیں کاٹ رہا تھا۔ سیاست دان‘ جو صرف اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے بیساکھیوں کو اہم سمجھتے تھے۔ ان ناخلف انسانوںکو بھی تاریخ کے کوڑے دان کا سامنا کرنا پڑا۔ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی چیرہ دستیوں سے مملکت خداداد‘ بربادی کے راستہ پر روانہ ہو گئی۔ اور یہ سلسلہ کوئی بھی روک نہ پایا۔ مگر ایک فرق ہے۔ ماضی کے سیاست دان ‘ جیسے غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ بھٹو‘ حکومت چلانے میں فرنٹ سیٹ پر براجمان تھے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے چند سیاست دان ہوس اقتدار میں اس قدر دیوانے ہو چکے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کی چاکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک کو اگر ایک بس گردان لیا جائے تو ڈرائیونگ سیٹ تو دور‘ یہ کنڈیکٹر بن کر بھی خوش ہیں۔

مگر سوچیے کہ جو منفی عناصر ‘ روم جیسی عظیم سلطنت کو گھائل کر گئے۔ کیا وہ ہمارے اندر موجود نہیں ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے ۔ بالکل ہیں اور ان کا تدارک بھی کوئی نہیں کر رہا۔ آئی ایم ایف کی حالیہ تحقیقاتی رپورٹ پر ہر نکتہ کو ثبوتوں کے ساتھ عیاں کیا گیا ہے۔ کرپشن‘ اشرافیہ کی چیرہ دستیاں‘ ملکی اداروں کا زوال حکومتی عمال کی بے اعتدالیاں ‘ انصاف فراہم نہ ہونا اور اس طرح کے متعدد معاملات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ عرض کرتا چلوں۔ کہ اشرافیہ اپنی دولت سمیٹ کر محفوظ ملکوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ پاکستان ان کے لیے صرف ایک چرا گاہ ہے۔ قدیم روم اور آج کے ہمارے ملک میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ دیکھیے نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ویسے تاریخ کا سبق تو بالکل سامنے‘ صاف نظر آ رہا ہے!

Similar Posts