خواتین اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے دنیا بھر میں 25نومبر سے 10 دسمبر تک 16 روزہ آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، رواں برس اس کا موضوع خواتین اور بچیوں کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کا خاتمہ ہے ۔ اس مہم کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حنا پرویز بٹ
(چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی)
پنجاب میں آگاہی اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024ء میں خواتین پر تشدد کے 32 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ، 2025 ء کے ابتدائی 6 ماہ میں 15 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں واضح کر دیا تھا خواتین اور بچوں پر کسی بھی قسم کا تشدد ان کی ریڈ لائن ہے۔
اس کے بعد انہوں نے بار ہا اپنی تقاریر میں کہا کہ خواتین کو 24 گھنٹے کے اندر اندر تحفظ ملے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خواتین کے خلاف کسی بھی جرم کی صورت میں فوری طور پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ 15 پر کال کی صورت میں پولیس 20 منٹ میں ان کے پاس پہنچتی ہے، ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کے ذریعے بھی خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جا رہا ہے۔
پنجاب پہلا صوبہ ہے جس نے 2016ء میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا باقاعدہ قانون بنا کر خواتین پر تشدد کو جرم قرار دیا۔ اس کے بعد میں پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی بنائی گئی اور ملتان میں سینٹر قائم کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کو مضبوط کیا اور لاہور میں ویمن پروٹیکشن سینٹر قائم کیا۔ ڈیڑھ سال قبل میں نے اس اتھارٹی کا چارج سنبھالا تو پہلا کیس ثانیہ زہرہ کا تھا۔اس بچی کا قتل کرکے اس پر خودکشی کا الزام لگا دیا گیا۔میں خود ملتان گئی، اس کی تصاویر دیکھیں، اس کے والدین سے ملاقات کی ۔
اس بچی کو دفنا دیا گیا تھا، ہم نے اس کی قبر کشائی کرائی اور اس کا پوسٹ مارٹم کرایا۔ پی ایف ایس اے نے ہماری بہت مدد کی اور 14 لوگوں کو ملتان سے لاہور بنا کر پولیگرافک ٹیسٹ کیا گیا۔ اس بچی کی گردن پر اس کے خاوند، ساس اور دیور کے ڈی این اے کے شواہد ملے۔ اس کیس کے حواے سے دبائو بھی آیا، ہم نے وزیراعلیٰ کی سپورٹ سے کوئی دبائو قبول نہیں کیا، اسے ٹیسٹ کیس بنایا اور اب ثانیہ زہرہ کے مجرم کو پھانسی کی سزا ہوچکی۔ سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا کیس جھنگ میں ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ تھا، یہ بچی سرجری کے باوجود اپاہج ہوگی۔ اس کے علاوہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے دیگر کیسز بھی سامنے آئے۔
زیادتی کے کیسز میں ایک چیز سامنے آئی کہ اس کی ایک وجہ غربت ہے۔ والدین روزگار کمانے کیلئے بچوں کے کسی کے حوالے کر دیتے ہیں، یا بچے گھر پہ اکیلے ہوتے ہیں تو ایسے میں اردگرد موجود رشتے دار یا جاننے والے، یا دکاندار بھی درندگی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ خواتین پر تشدد کی بات کریں تو اس میں ہر طرح کا تشدد جیسے کہ قتل، تیزاب گردی، زیادتی، ذہنی و جسمانی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔میں نے سب سے پہلے تیزاب گردی کے خلاف قانون کے حوالے سے کام کیا۔ پولیس نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے، اس محکمے میں انقلابی قدامات کیے گئے ہیں۔ موبائل پولیس وینز تیار کی گئی ہیں جو تعلیمی و دیگر اداروں میں جاتی ہیں اور وہاں ہی ایف آئی آرز درج کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو دہلیز پر انصاف فراہم کیا جائے۔
پولیس کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی ہیلپ لائن 1737 موجود ہے جہاں رپورٹ کی جاسکتی ہے۔ ہم لاہور پروٹیکشن سینٹر میں ایم ایل سی یونٹ اور تھانہ بھی بنا ہے ہیں تاکہ خواتین کو سپورٹ دی جاسکے۔خواتین کو ان کے خاوند پیسے نہ دیکر معاشی تشدد کرتے ہیں، ان سے بچے بھی چھین لیے جاتے ہیں، ہماری اتھارٹی پروٹیکشن اور مینٹی ننس آرڈر بھی دیتی ہے کہ خاتون کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا، خاتون اور بچوں کا خرچ بھی دلوایا جاتا ہے۔ اسی طرح خواتین کو مفت قانونی معاونت ، فوری ایف آئی آر اور شیلٹر ہومز بھی فراہم کی جاتے ہے۔ایک خاتون اگر ہمارے پاس آتی ہے تو ایک ہی چھت تلے اسے تمام سہولیات دی جاتی ہیں۔ اسے تحفظ اور انصاف فراہم کیا جاتا ہے ۔
ہر خاتون کیلئے محفوظ پنجاب بنانا اور ان کی آوازکو مضبوط بنانا ہمارا مشن ہے۔ اب پنجاب میں کسی بھی سطح پر کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں،بہترین قوانین اور عملدرآمد کا میکنزم موجود ہے۔خواتین کے خلاف ڈیجیٹل وائلنس ہو رہی ہے۔ جھنگ میں ایک لڑکی نے خودکشی کر لی، لڑکے کے پاس اس کی ویڈیو تھی، وہ اسے بلیک میل کر رہا تھا۔ جب پولیس کے پاس اس بچی کا فون آیا، تفتیش کی، اس لڑکے کو ہنی ٹریپ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پانچ اور بچیوں کو بلیک میل کر رہا تھا۔ میں ڈی پی او جھنگ کے آفس تھی اور بلیک میل ہونے والی بچیاں میرے ساتھ تھیں۔
ڈیجیٹل وائلنس بہت پھیل رہا ہے، فیک ویڈیوز بنائی جارہی ہیں، ہمارے سائبر کرائم قوانین سخت ہیں، ہم نے ایف آئی اے اور سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ایم او یو سائن کیا ہے تاکہ لڑکیوں کو انصاف اور تحفظ مل سکے۔میں لڑکیوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ آپ کمزور نہیں ہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، کسی خوف کی ضرورت نہیں۔ہم 16 روزہ مہم کے دوران مختلف یونیورسٹیز میں جا رہے ہیں۔
ہم لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی بھی تربیت کر رہے ہیں۔ ہم لڑکوں کو امن کے سفیر بنا رہے ہیںتاکہ معاشرے مں بہتری لائی جاسکے۔ ہم سیف سٹیز کیمروں کے ذریعے مجرموں کا پکڑ رہے ہیں۔ میں ایک ایسی بچی کو ملی جس کا منہ تیزاب سے جھلس چکا تھا۔ میں اسے ہسپتال ملنے گئی، اس سے پوچھا تو اس نے ڈر کی وجہ سے کہا کہ تیزاب میں میرے ہاتھ میں تھا، خود گر گیا۔
ہم نے سیف سٹیز کے ذریعے مجرموں کو پکڑا جس کی ویڈیو موجود تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز انسانی حقوق کی علمبردار ہیں، وہ خواتین کے حقوق کیلئے بھی ہر ممکن کام کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے جرائم میں حکومت مدعی بن رہی ہے، اب کسی مجرم کو معاف نہیں کیا جائے گا۔خواتین پر تشدد کے خلاف جرائم کی روک تھام اور فوری انصاف کیلئے الگ عدالتیں بنانے پرغور کر رہے ہیں، خواتین پر تشدد کا خاتمہ حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی، اکیڈیما سمیت سب کی ذمہ داری ہے، ہمیں من حیث القوم اس کیلئے کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ جینڈر سٹڈیزجامعہ پنجاب)
بچوں کی تربیت سکول سے شروع ہوتی ہے لیکن ہمارے نصاب میں صنفی امتیاز ہونے کی وجہ سے خواتین کے حوالے سے ایک خاص رائے بنتی ہے کہ خواتین نے صرف گھر کے کام کرنے ہیں۔ انہوں نے کیا کرنا ہے، کیا پہننا ہے، کونسا رنگ ہوگا، یہ سب نصاب میں سکھا یا جاتا ہے۔نصاب بتاتا ہے کہ دو بچے سکول سے واپس آتے ہیں تو بچی بستہ رکھ کر ماں کا ہاتھ بٹاتی ہے اور بچہ دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلاجاتا ہے۔اسی طرح رنگوں کے ذریعے بھی سوچ پیدا کی جاتی ہے کیونکہ ہر رنگ کے ساتھ کچھ خصوصیات جڑی ہیں۔
مثال کے طور پر لڑکیوں کو گلابی رنگ پہننا چاہیے کیونکہ نازکی کی علامت ہے اور جو رنگ مضبوطی کو ظاہر کرتے ہیں وہ لڑکوں کیلئے ہیں۔ یہی صورتحال کھلونوں کے حساب سے ہے۔ یہ امتیازی سلوک کسی بھی بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے۔
ماں کو دعا دی جاتی ہے کہ اللہ تمہیں بیٹے سے نوازے۔ بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی جاتی ہے جبکہ ایسے افسوناک واقعات بھی ہوئے کہ جڑواں بیٹیاں پیدا ہوئین تو باپ نے انہیں پانی میں ڈبو کر مار دیا۔ جب ہم کالج، یونیورسٹی کی سطح پر آتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں امتیازی رویے نظر آتے ہیں لہٰذا معاشرے میں خواتین کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کیلئے اگر مگر نہیں بلکہ سخت سزائیں یقینی بنانا ہوں گی۔ جو لوگ کسی بھی طرح تشدد کی حمایت کرتے ہیں، ان کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا جائے اور انہیں سزا بھی دی جائے۔
یہ کہنا کہ اگر تیزاب گردی ہوئی ہے تو عورت نے کچھ کیا ہوگا، اس پر تشدد ہوا ہے تو زبان چلائی ہوگی، یہ توجیہات کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہیں، تیزاب گردی اور تشدد جرم ہے، اس کی سخت سزا ہونی چاہیے اور توجہیات پیش کرکے ایسے رویوں کو سپورٹ کرنے والوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔نور مقدم کا سر کاٹ کر اس سے فٹ بال کھیلا گیا، یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ معاملہ ہے۔ اس وقت دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون تشدد کا شکار ہو رہی ہے اور وہ بھی اپنی قریبی ساتھی سے۔ اس سے معاملے کی سنگینی اور پھیلائو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا اس حوالے سے ریاست کو سخت اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔بدقسمتی سے لڑکے کی خواہش میں خاتون کی صحت سے خطرے میں ڈالی جاتی ہے، یہ بھی تشدد کی ایک قسم ہے۔
خواتین کی دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہیں لہٰذا اس تشدد کو روکنے کیلئے ہیلتھ ایمرجنسی لگانا ہوگی۔رواں برس16 روزہ آگاہی مہم ڈیجیٹل تشدد کے حوالے سے ہے جس سے ہماری خواتین اور بچیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، اس پر زیادہ سے زیادہ بات کرنے اور قانون سازی کے ذریعے ایک بہترین لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر امتیازی رویے موجود ہیں،لوگوں کی سوچ اور رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔
آئمہ محمود
(جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)
1991ء میں عالمی ادارے سینٹر فار ویمن گلوبل لیڈر شپ نے 16 روزہ آگاہی مہم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومتیں، سماجی تنظیمیں، ٹریڈ یونینز اور تعلیمی اداروں کے سربراہان، سب مل کر خواتین اور لڑکیوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف آگاہی کو بڑھائیں، قوانین کے عملدرآمد پر دبائو بڑھائیں اور معاشرے میں تبدیلی کے حوالے سے کام کریں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے وکلاء، مزدور، محنت کش، اکیڈیمیا، میڈیا سمیت سب نے مل کر کوشش کی کہ خواتین کیلئے ہراسگی سے پاک اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیں جہاں تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر مواقع میسر ہوں۔ ان تمام مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جائزہ لینا ہے کہ ہمارے ملک میں صورتحال کیا ہے۔ جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان دنیا میں آخری نمبروں پر ہے۔
خواتین کی سیاسی نمائندگی، تحفظ اور معاشی صورتحال کے حوالے سے ہم جنوبی ایشیاء میں نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی پیچھے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد اور صنفی امتیاز ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔جہاں ہم مذہب، زبان، رنگ، نسل کی بنیاد پر تقسیم ہیں وہاں ہمارے سماجی رویے عورت کو اپنی جاگیر تصور کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے تو صورتحال کافی بہتر ہو رہی ہے لیکن معاشی سرگرمیوں میں شمولیت، سیاسی نمائندگی اور خواتین سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے ہماری صورتحال کافی خراب ہے۔
جب تک خواتین کو معاشی طور پر خودمختار نہیں بنایا جائے گا تب تک ان پر تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور خوس قسمتی سے اس کی وزیراعلیٰ ایک خاتون ہیں جنہوں نے موثر ٹیم بنائی ہے، امید ہے کہ ان کی ٹیم حقیقت میں خواتین کے حوالے سے بہتری لانے کیلئے کام جاری رکھے گی۔پنجاب میں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ابھی بہت سارے واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے کیونکہ خواتین سماجی دبائو اور معاشی خودمختاری نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں۔ اگر کوئی آواز اٹھائے تو بدقسمتی سے جو قوانین خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بنائے گئے ہیں ان پر عملدرآمد کی صورتحال بہت بری ہے، ایک فیصد سے بھی کم افراد کو سزائیں سنائی گئیں، یہ شرح دیکھ کر خواتین خواتین کا حوصلہ کم ہوتا ہے۔
جب تک خواتین کے خلاف جرائم میں سخت سزائیں نہیں دیں گے، جرائم نہیں رکیں گے۔ پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن اچھا کام کر رہی ہیں لیکن ہمیں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں میں محنت کش خواتین کے حوالے سے کوئی خاص حکمت عملی نہیں بنائی جاتی۔ سیاسی جماعتوں کی لیبر ونگ میں بھی ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ ہمیں سیاست میں خواتین کی نمائندگی بڑھانا ہوگی، انہیں فیصلہ ساز عہدوں اور اسمبلیوں میں آگے لانا ہوگا، برابر نمائندگی دینا ہوگی۔انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق 95 فیصد خواتین ذہنی اور جسمانی طور پرگھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ معاشی طور پر خود مختار نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین رپورٹ کرنے اور تھانے جانے سے کتراتی ہیں، ہمیں خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ خواتین میری ریڈ لائن ہیں ۔
اس ریڈ لائن پر عملدرآمد کے حوالے سے ہمیں صرف 16 دن آگاہی پر ہی کام نہیں کرنا بلکہ یہ بھی سوچنا ہے کہ خواتین کام کے کتنے مواقع فراہم کرنے ہیں،انہیں سیاسی نمائندگی دینی ہے۔ حنا پرویز بٹ ویمن کاکس پنجاب کی نمائندگی کرتی رہی ہیں، اس وقت بھی ہم مطالبہ کرتے تھے کہ خواتین کی اسمبلیوں میں برابر نمائندگی ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے سے خواتین کے خلاف تشدد ، جرائم اور استحصال کا خاتمہ تب ہوگا جب وہ معاشرے میں برابر شہری ہوں اور ہر جگہ پر ان کی برابر نمائندگی نظر آئے ۔ اس حکومت میں بڑے عہدوں پر خواتین کام کر رہی ہیں اسی لیے ہماری اس حکومت سے توقعات زیادہ ہیں۔
پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کا ہونا خواتین کی خود مختاری کو فروغ دینے کا اہم موقع ہے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں حکومت خواتین پر تشدد ، استحصال کے خاتمے اور معاشی خودمختاری کیلئے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود افراد کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی لائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے نظام انصاف میں معاشرتی سوچ جھلکتی ہے، کچھ عرصہ قبل تک غیر کے نام پر قتل کرنے والوں کوباعزت بری کر دیا جاتا تھا۔
ہمیں ہر سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں خواتین کے ساتھ ساتھ لڑکوں اور مردوں کو بھی آگاہی دینی ہے، ان کی سوچ بدلنے پر بھی کام کرنا ہے تاکہ وہ خواتین کو انسان اور برابر کا شہری سمجھیں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ جس طرح ٹریفک قوانین کے حوالے سے بھاری جرمانے اور سخت سزائیں رکھی گئی ہیں، اسی طرح میرا مطالبہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے سخت اور فوری سزائیں نافذ کی جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جہاں غفلت برتی جائے ان کا بھی احتساب کیا جائے۔