نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کی لیکن پی ٹی آئی نے ہر بار انکار کیا، جس کے باعث سیاسی کشیدگی برقرار ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی وزیراعظم کی مذاکراتی پیشکش قبول کرلیتی تو ملک میں سیاسی درجہ حرارت نمایاں طور پر کم ہوسکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنما وہی مؤقف اختیار کر رہے ہیں جو بھارت کے مؤقف سے ملتا جلتا ہے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے تقریباً 80 فیصد رہنما عمران خان کی موجودہ پالیسی اور طرزِ سیاست سے اختلاف رکھتے ہیں، جبکہ جماعت کے اندر ایک بڑا دھڑا قیادت کے فیصلوں سے مطمئن نہیں۔
اس سے قبل ایک اور انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے جلسے میں کی جانے والی تقاریر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی حرکات نے پیغام پہنچا دیا ہے کہ پی ٹی آئی خود اپنے سیاسی انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی کی اکثریت اس پاگل پن کا حصہ نہیں بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف غداری کے مقدمے کے امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا اور ان کا انجام ایم کیو ایم کی سابق قیادت جیسا ہوسکتا ہے۔
رانا ثنا کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستان تحریک انصاف اور اڈیالہ تحریک انصاف کے درمیان واضح فرق بھی سامنے آجائے گا۔