سزا ہوگئی مگر حساب ابھی باقی ہے

مصطفیٰ صفدر بیگ

یہ سزا اپنی جگہ ایک بڑا فیصلہ ہے مگر اس فیصلے کی پرتیں کھولیں تو اس کے اندر برسوں کی وہ کہانی چھپی ہے جس کے ہر موڑ پر ریاست کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ یہ محض ایک مقدمے کا اختتام نہیں بلکہ ایک ایسے دور کی خون آشام بازگشت ہے جس نے پاکستان کی روح تک کو ہلا کر رکھ دیا۔ 

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو چودہ برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے جو بظاہر ایک قانونی کارروائی تھی مگر اس کے پس منظر میں ہماری عسکری تاریخ کا وہ باب بھی وا ہوگیا جس میں طاقت کے بے جا استعمال نے پورے ملک کو عدم استحکام کے گرداب میں دھکیل دیا تھا۔ قانون نے اپنا راستہ لیا اور فوجی عدالت نے اپنا کام کر دکھایا مگر اس داستان کا اصل حساب ابھی باقی ہے۔

آئی ایس پی آر کا بیان واضح کرتا ہے کہ یہ مقدمہ محض رسمی کارروائی نہیں تھا۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت طویل قانونی مراحل طے ہوئے، ملزم کو اپنی مرضی کی دفاعی ٹیم کا پورا حق دیا گیا، دلائل سنے گئے، ثبوت پرکھے گئے اور پھر چار سنگین ترین نوعیت کے جرائم پر اسے قصوروار پایا گیا۔ 

سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنا، ریاستی وسائل کو ذاتی اہداف کے لیے  استعمال کرنا اور شہریوں کو غیر قانونی اقدامات کے ذریعے نقصان پہنچانا۔ یہ وہ سیاہ دھبے ہیں جن کا بوجھ اگر ایک شخص کے کندھوں پر رکھ بھی دیا جائے تو قوم کے دل پر لگے چرکے اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ سزا اپنی جگہ قائم مگر سوالات کا سلسلہ طویل ہے۔

یہ فیصلہ ایک علامتی اقدام ضرور ہے۔ برسوں سے عوام یہ دہائی دیتے آئے ہیں کہ احتساب اگر سچا ہے تو پھر اس کی کرنیں اداروں کے اندر تک پہنچنی چاہئیں۔ ایک اصول اگر عام شہری پر لاگو ہوتا ہے تو پھر وہی اصول طاقت کے ایوانوں تک بھی رسائی رکھے۔ فوج نے اس فیصلے کے ذریعے اپنے داخلی احتساب کے دروازے کھولنے کی ایک اہم کوشش کی ہے۔ یہ ابتدا ہے، ایک سنگ میل ہے اور ایک اشارہ ہے کہ ادارہ کم از کم یہ تسلیم کرتا ہے کہ کوئی شخص قانون کا تابع ہے، اس سے بالاتر نہیں۔ مگر قوم کا سوال اتنا سادہ نہیں کہ صرف ایک سزا سے تسلی ہو جائے۔

اصل سوال یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کیا یہ سزا اس دور کے ملبے کو صاف کر سکتی ہے جس میں اس ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا تھا۔ بالخصوص وہ آٹھ برس جو 2018 سے 2023 تک اس قوم سے چرا لیے گئے، ان کے زیاں کا حساب کون دے گا؟ ان برسوں میں وہ سیاسی تانا بانا بُنا گیا جس کے دھاگے ابھی تک ہمارے دامن سے الجھے پڑے ہیں۔ ریاستی حدود پامال ہوئیں، سیاسی انجینئرنگ کو عروج ملا، مصنوعی بیانیے تراشے گئے، مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے  استعمال کیا گیا اور معاشرے میں تقسیم کی وہ خلیج ڈال دی گئی جو آج تک پاٹنے میں نہیں آ رہی۔

مذہبی شدت پسندی کی جس آگ کو اس دور میں ہوا دی گئی اس نے نہ صرف سیاست کو آلودہ کیا بلکہ معاشرت کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک ایسا مذہبی طبقہ جو کبھی نرم مزاجی اور اعتدال کی پہچان سمجھا جاتا تھا اسے جذباتی پریشر گروپ میں بدل دیا گیا۔ اسی سطحی تربیت کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اسی ذہنی یلغار نے عالمی معیار کے ٹیکنوکریٹس کو واپس پلٹنے پر مجبور کیا۔ یہ صرف سیاسی غلطی نہیں تھی بلکہ قومی جرم تھا۔ یہ قوموں کے مستقبل کو کنویں میں دھکیلنے والی فیصلہ سازیاں تھیں جو محض وقتی سیاسی فوائد کی خاطر کی گئیں۔

پنجاب کی دیہی سیاست میں ایک مخصوص جماعت کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے  ملک کو مذہبی جذبات کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ یہ کھیل اتنا خطرناک تھا کہ اس نے ایک نسل کی ذہنی تربیت کا رخ بدل دیا۔ آج تک ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ ذہن تقسیم کا شکار ہیں، کس طرح ایک بیانیہ ان کے لیے  مقدس آیات کی تفسیر کا درجہ رکھتا ہے اور کس طرح حقیقت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے؟ یہ سب ایک سزا سے ختم نہیں ہوجاتا، یہ لمبی جدوجہد مانگتا ہے اور شاید برسوں کی محنت، ریاضت اور کشٹ مانگتا ہے۔

معاشی تباہی بھی کسی فرد واحد کے کندھوں پر نہیں رکھی جا سکتی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہمیشہ معیشت کو نگل جاتا ہے۔ سرمایہ کار بھاگتے ہیں، روپے کی سانسیں ٹوٹتی ہیں، صنعت کار ہاتھ روک لیتے ہیں، بیروزگاری بڑھتی ہے اور پھر نوجوان بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں۔ یہ وہ سلسلہ تھا جو اس پورے دور میں چلتا رہا۔ ایک ملک جس کی معاشی لو پہلے ہی چراغ آخر شب کی مانند لڑکھڑا رہی تھی، اسے احتجاجی آندھیوں کے سپرد کردیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا چودہ سال کی سزا اس ڈوبتی معیشت کی تلافی کر سکتی ہے؟

سماجی سطح پر بھی نقصان کم نہ تھا۔ اختلافِ رائے کو غداری قرار دیا گیا، سیاسی نااتفاقی کو دشمنی کہہ کر پھیلایا گیا اور پروپیگنڈے کے سیلاب نے گھر گھر میں بدگمانی کی فضا پیدا کردی۔ یہی وہ ماحول تھا جس میں خاندان تقسیم ہوئے، دوست دشمن بنے اور پڑوسی ایک دوسرے سے گریز کرنے لگے۔ ذہنی پراگندگی کی یہ فصل اتنی جلدی ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ لمبے عرصے کے اسباق مانگتی ہے۔

اس کہانی کا ایک اہم اور تلخ زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ صرف ایک فرد کی کارستانی تھی۔ کیا ایک شخص پورے ادارے کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا تھا۔ اگر ہاں تو یہ ادارے کے نظام کی کمزوری ہے۔ اگر نہیں تو پھر خاموش رضامندی، مصلحت اور چشم پوشی نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت سب سے زیادہ سنجیدگی سے پوچھا جانا چاہیے۔ اگر نظام کا ڈھانچہ اس قابل ہے کہ ایک شخص اتنی طاقت اکٹھی کرلے کہ حکومتیں بنانے اور گرانے لگے، مذہبی گروہوں کو ہتھیار بنا لے، ملکی بیانیہ گھڑ لے اور ریاست کو اپنی مرضی کے تجربوں کی آتشیں بھٹی میں جھونک دے تو پھر مسئلہ فرد سے بڑھ کر پورے نظام کے ڈھانچے میں ہے۔

سزا درست فیصلے کی طرف یقیناً ایک اہم قدم ہے مگر اصل منزل وہیں ہے جہاں قوم کو یہ یقین دہانی مل سکے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ایسے مضبوط بند باندھے جائیں جنہیں کوئی شخص اپنی خواہش کے لیے  توڑ نہ سکے۔ ایسے حفاظتی نظام موجود ہوں جو کسی افسر کو طاقت کے بے دریغ استعمال سے روک سکیں۔ اگر یہ اصلاحات نہیں ہوتیں تو پھر یہ سزا محض علامتی رہ جائے گی۔ اصلاح کا بنیادی اصول یہی ہے کہ غلطی سے سیکھا جائے اور آگے بڑھ کر اسے روکنے کا بندوبست کیا جائے۔

پاکستان کو اب ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ ایسا معاہدہ جس میں اداروں کی حدود واضح ہوں، حکومت کی طاقت آئین کی نکیل میں بندھی ہو، اور کوئی فرد یا گروہ ریاست کی جمہوری روانی پر شب خون نہ مار سکے۔ جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں اور ادارے عوامی اختیار کے محافظ۔ ہوں۔ جہاں سیاسی انجینئرنگ کا دور ہمیشہ کے لیے  ختم ہو جائے اور ملک نئے دور میں داخل ہوسکے۔

فیض حمید کی سزا ایک سنگ میل ضرور ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ احتساب کا پہلا در کھل چکا ہے مگر آخری دروازہ ابھی بہت دور ہے۔ اصل احتساب اس وقت مکمل ہوگا جب اس دور کے زخموں کا اعتراف بھی کیا جائے گا، ان کا علاج بھی تجویز ہوگا اور وہ نظام بھی درست کیا جائے گا جس نے یہ زخم لگنے دیے۔ قوم کو یہ اعتماد درکار ہے کہ آئندہ کوئی فرد، کوئی ادارہ اور کوئی گروہ ریاست کی بساط سے یوں نہیں کھیل سکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Similar Posts