غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی المیے کی ایسی گواہ بن چکی ہے جس کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر جس امن کی امید اس وقفے سے وابستہ کی گئی تھی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دھندلا رہا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ جنگ کے شعلوں سے بچ کر خیموں میں پناہ لینے والے فلسطینی اب بارش، سردی، بیماری اور بھوک کے دوسرے جہنم میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ المواصی جیسے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بارش کا پانی خیموں میں داخل ہو چکا ہے، جس نے نہ صرف رہائش کو ناممکن بنا دیا ہے بلکہ خوراک اور ادویات کی بچی کھچی فراہمی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے گھر افراد کے لیے یہ موسم محض ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ موت کا دوسرا چہرہ بن کر ابھرا ہے۔ شدید سردی، آلودہ پانی، دلدلی زمین، بیماریوں کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خوراک کی کمی نے انسانی بحران کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ عالمی ادارے اسے ’’ ناقابلِ تصور‘‘ اور ’’ناقابلِ قبول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
جنگ بندی کے دعوئوں کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں رکی نہیں۔ معاہدے کے 62 ویں دن بھی مزید چار فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، اور مجموعی طور پر اس وقفے کے دوران 386 سے زیادہ افراد اپنی جان سے گئے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ جس چیز کو جنگ بندی کہا جا رہا ہے وہ در حقیقت ایک خطرناک فریب ہے۔ ہتھیاروں کی آواز بظاہر دھیمی پڑی ہے مگر فلسطینیوں کی قبروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اس تضاد کو سمجھے اور اسے ایک ’’سیاسی اصطلاح‘‘ کے بجائے ’’انسانی تباہی‘‘ کے تناظر میں دیکھے۔دراصل فلسطینیوں کی زندگیوں کا معاملہ عالمی سیاست کے بڑے کھیل میں ایک قابلِ استعمال مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر کا یہ کہنا کہ ’’ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی‘‘ دراصل ایک ایسا بیان ہے جس کی بنیاد پر کوئی فریق بھی حقیقی اطمینان محسوس نہیں کر سکتا۔ پچھلے کئی عشروں نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کی ’’نگرانی‘‘ اکثر طاقت کے پلڑے کو مزید جھکا دیتی ہے، نہ کہ انصاف کے توازن کو۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف نعرے اور بریفنگ کی زبان میں قائم نہیں ہوتا، بلکہ عملی غیر جانب داری اور انسانی وقار کی پاسداری سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔اسی پس منظر میں اسرائیل نہ صرف جنگ کے قوانین بلکہ اطلاعات کی آزادی اور صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھی مسلسل پامال کر رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ غزہ پر اسرائیلی یلغار کے آغاز یعنی اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 220 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب اسرائیل دنیا کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہوا ہے، جہاں صحافیوں کا قتل محض ’’حادثہ‘‘ نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ عالمی میڈیا اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ صحافیوں کو جنگی نشانہ بنانے کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے طاقتور ملکوں کے سیاسی مفادات نے ہمیشہ انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے رہنے کا کردار ادا کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے قتل پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے، اگر دنیا اس قتلِ حقیقت پر بھی خاموش رہے تو آنے والی نسلیں اس عصر کو ایک ایسے دور کے طور پر یاد کریں گی جہاں طاقت نے سچ کو شکست دینے کی کوشش کی اور دنیا نے تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھا۔
غزہ کے اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر حملے محض عسکری تنصیبات ’’سمجھنے‘‘ کی غلطی نہیں بلکہ گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 25 اگست کو جنوبی غزہ کے ایک اسپتال پر کیا جانے والا حملہ ’’سب سے خوفناک واقعہ‘‘ تھا جس میں پانچ صحافی ایک ہی دن میں جاں بحق ہوگئے۔ اس تمام منظر نامے میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ’’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگی جرائم، محاصروں، بھوک، بیماری اور مسموم حالات نے جس نسل کی پرورش کی ہے، وہ ہتھیاروں سے زیادہ مظلومیت کی تاریخ رکھتی ہے۔ دنیا کی طاقتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مزاحمت کا خاتمہ بمباری سے نہیں بلکہ انصاف سے ہوتا ہے۔ اور جب انصاف مسلسل غیر حاضر ہو تو مزاحمت نہ ختم ہوتی ہے نہ اس کی مثالیں مٹتی ہیں۔
غزہ کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی صرف بمباری، محاصروں، بھوک، خوف اور بے گھر ہونے میں گزاری ہے۔ وہ دنیا کی ان پالیسیوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے جن میں طاقتور ملکوں کے سیاسی اور معاشی مفادات انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ جب ایک پوری نسل اپنے اردگرد صرف ملبہ، جنازے اور ظلم دیکھتی ہے تو وہ بے حسی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی شناخت دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی نوجوان مزاحمت کی نئی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت صرف اسلحہ نہیں بلکہ شعور، کلمہ سچ اور مسلسل جدوجہد سے بھی پروان چڑھتی ہے۔
دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انسانی ضمیر کا امتحان لیا گیا، مگر گزشتہ برسوں میں اور بالخصوص حالیہ مہینوں میں غزہ میں جاری تباہی نے اس امتحان کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں اب خاموشی بھی جرم ہے اور لاتعلقی بھی ظلم کا ساتھ تصور ہوتی ہے۔ غزہ کے بچے، عورتیں، مرد، صحافی، معلم، ڈاکٹر اور عام شہری مسلسل بمباری، محاصرے، بھوک، پیاس اور بے گھر ہونے کے اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا شکار صرف انسان نہیں بلکہ سچائی، انصاف، صحافت اور عالمی ضمیر بھی اس بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔غزہ کا مسئلہ محض فلسطینیوں تک محدود نہیں، یہ وہ آئینہ ہے جس میں پوری دنیا کی اخلاقی سمت، سیاسی ترجیحات اور انسانی قدریں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ مرنے والے بچوں کا سوال صرف فلسطین کا سوال نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔
کیا دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کے قتلِ عام پر خاموش رہے گی؟ کیا عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک، اپنی بے بسی یا بے عملی کو ’’غیر جانبداری‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ یا پھر دنیا قومیت، نسل، مذہب اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر انسان کی بنیادی حرمت کو مقدم رکھے گی؟
غزہ کا مسئلہ سب سے پہلے انصاف کا مسئلہ ہے۔ انصاف کا اصول یہ ہے کہ طاقتور اور کمزور دونوں کو یکساں حق دیا جائے، مگر زمین پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا کا نظام اُس وقت تلخ سچائی بیان کرتا ہے جب عالمی عدالتیں صرف کمزور ممالک یا غیر ہم نوا ریاستوں کے خلاف تو سرگرم دکھائی دیتی ہیں، مگر جب ایک ایسی طاقت ظلم ڈھائے جو بڑی قوتوں کی حلیف ہو، اُس کے خلاف زبانیں گنگ اور قلم مفلوج ہوجاتے ہیں۔ غزہ میں لاکھوں انسانوں کو اجتماعی سزا دینا، بنیادی ضرورتوں کا محاصرہ، پانی اور خوراک کی بندش، اسپتالوں کی تباہی، پناہ گاہوں پر حملے، یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، مگر انصاف کے علمبردار اداروں کی خاموشی خود ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
یہ معاملہ انسانیت کا بھی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں بھی کوئی بچہ بھوک سے مرتا ہے، کوئی عورت ملبے تلے سسک رہی ہے، کوئی بیمار دوا کے بغیر جان دے رہا ہے، تو انسانیت کا دعویٰ رکھنے والی دنیا کو اُس کا دکھ محسوس کرنا چاہیے، لیکن غزہ کے معاملے میں دنیا کی اکثریت نے بچوں کی چیخوں کو پس منظر کا شور سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ بعض ممالک نے تو یہ بے حسی اختیار کی کہ جنگی مشینری کو مزید ایندھن فراہم کرنے لگے۔ انسانیت کی حرمت کا تقاضا تھا کہ دنیا متحد ہو کر ظلم کو روکتی، مگر افسوس کہ اکثر طاقتیں سیاسی مفادات کی غلام بن کر رہ گئیں۔
غزہ کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف، انسانیت، صحافت، سچائی اور عالمی امن کا مسئلہ ہے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف کھڑی ہے۔ مظلوم کے ساتھ یا طاقت کے نشے میں بدمست جارحیت کے ساتھ؟ اگر عالمی ضمیر نے اب بھی جاگنے سے انکار کیا تو تاریخ کے صفحات پر اس دور کی قیادت کے لیے صرف ایک ہی جملہ لکھا جائے گا:’’انھوں نے ظلم دیکھا، مگر خاموش رہے۔‘‘