بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!

مصر 1922 میں برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔بادشاہت بدستور قائم تھی۔ شہنشاہ فہد اول حکمران تھا۔شاہی خاندان میں فاروق نام کا شہزادہ پیدا ہوا۔ جو صرف سولہ سال کی عمر میں شہنشاہ بن گیا۔ اس کی تعلیم و تربیت برطانیہ کے اول درجے کی تعلیمی درس گاہوں میں مکمل ہوئی تھی ۔ رکھ رکھاؤ اور ادب آداب میں شہنشاہ فاروق بالکل مستند تھا۔عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں شامل تھا۔ خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ۔ بیش قیمت بلکہ خیرہ کن محلات میں قیام کرتا تھا ۔

دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں تھی جوفاروق کے پاس نہ ہو ۔ مگر قدرت کا ستم دیکھیے کہ بادشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں چوری کرنے کی علت میں مبتلا تھا۔ اس عادت کو ایک بیماری کا نام دیا گیا ہے ۔ جسے kleptomania  کہا جاتا ہے ۔ شاہی دعوتوں میں سونے کے چمچ اور کانٹے اپنی جیب میں ڈال لیتا تھا۔ پھر اس سامان کو ایک خفیہ کمرے میں چھپا کر رکھ دیتا تھا ۔ جس کی چابی صرف اور صرف اس کے پاس تھی۔ شروع شروع میں لوگوں کو بالکل معلوم نہ ہو پایا کہ ان کا بادشاہ کس منفی رجحان کا مالک ہے۔ اندازہ کیجیے کہ قیمتی ترین گاڑیوں پر سوار ہونے والا انسان ‘ بیش قیمت ترین بحری جہازوں کا مالک چھوٹی چھوٹی اشیاء چوری کرتا تھا۔ اس کو اپنا کارنامہ گردانتا تھا۔

ایک دن اٹلی کا سفیر دربار میں ملاقات کے لیے آیا ۔ انتہائی پروٹوکول کے اندر کھانے کی ٹیبل سجائی گئی۔ بادشاہ اور سفیر کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں ۔ موقع پا کر فاروق نے سفیر کی جیب سے بٹوا چوری کر لیا۔ قیامت یہ ہوئی کہ سفیر نے یہ چوری اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ۔ مگر وہ خاموش رہا۔واپسی پر سفیر نے یہ تمام واقعہ ایک خط کی صورت میں اپنی حکومت کو لکھا ۔ سرکاری سطح پر یہ بات پہلی بار عیاں ہوئی کہ مصر کا شہنشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا لیتا ہے ۔

دیکھنے میں ہر درجہ وجیہہ انسان اندر سے اتنا کھوکھلا ہو گا ۔ اس بات کا آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چلنا شروع ہو گیا۔ فاروق نے پورے ملک میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا جو فن ِجیب تراشی میں یکتا ہو۔ معلوم ہوا ‘ کہ مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا چور زندہ ہے مگر جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے پیش کیا گیا۔ مکالمہ کچھ یوں ہوا کہ بادشاہ نے اس جیب تراش سے اس فن کو سیکھنے کی خواہش کی جس سے وہ اپنے کام میں مزید بہتر ہو جائے۔

یعنی ایک پختہ ترین چور یا جیب کترا بن جائے۔ اس کے عوض شہنشاہ نے چور کی سزا معاف کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ کے چیزیں چوری کرنے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے متعدد تربیتی سیشن ہوئے ۔ اور وہ ایک کائیاں ترین چور بن گیا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا ۔ بادشاہ مختلف چوروں اور جیب کتروں کو محل میں طلب کر کے ان سے لیکچر لیتا رہتا تھا تاکہ غلطی کا کوئی امکان نہ رہے ۔ یہ ذہنی بیماری تمام اخلاقی اور قانونی حدود توڑ گئی۔ ایک رات فاروق نے خواب دیکھا کہ ایک شیر نے اس پر حملہ کیا ہے اور زخمی کرنے کی کوشش کی ہے۔ صبح شاہی فرمان جاری کیا کہ قاہرہ کے چڑیا گھر میں موجود تمام شیروں کو گولی مار دی جائے۔

مصر کے دارالخلافے یعنی قاہرہ کے چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین شیر موجود تھے۔ جن کو دیکھنے کے لیے ہر طرف سے لوگ آتے تھے۔ شیروں کو بڑی محنت اور احتیاط سے رکھا گیا تھا ۔ ان کی خوبصورتی کی دھاک پوری دنیا پر تھی۔ مگر بادشاہ کے احمقانہ حکم کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا تھا۔ تعمیل میں چند فوجی چڑیا گھر بھجوائے گئے۔ انھوںنے وہاں موجود تمام شیر گولیوں سے بھون دیے۔ ظلم ‘ جبر اور وہم کا اندازہ لگایئے کہ کوئی بھی درباری ‘ فاروق کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا تھا کہ خواب میں شیر کو دیکھنا اور اس کے جواب میں تمام شیروں کو مار دینا مکمل طور پر نامناسب ہے۔ لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی مگر فاروق کو اس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ 

ایک سرکاری دورے پر شہنشاہ فاروق کو برطانیہ جانا پڑا ۔ سیکڑوں خادم اور قیمتی ترین گاڑیاں قافلے کی ہم رکاب تھیں۔ لندن کے ایک شاہی محل میں ٹھہرایا گیا ۔ سرکاری نہیں بلکہ شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا۔ اس دورے میں برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل سے بھی ملاقات طے تھی۔ مہمان کو لاؤ لشکر کے ساتھ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر بڑے اہتمام سے لایا گیا۔ ونسٹن چرچل نے باہر آ کر اسے خوش آمدید کہا اور دونوں کی ملاقات شروع ہو گئی۔

اس اہم ترین ملاقات کے دوران چرچل نے محسوس کیا کہ بادشاہ کی انگلیاں اس کے کوٹ کی جیب میں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔ دراصل چرچل کوٹ کی جیب میں گھڑی رکھتا تھا۔ مہمان بادشاہ نے چرچل کی جیب سے گھڑی چوری کر لی۔ اپنی پتلون میں چھپا لی۔ چرچل کو فوری طور پر پتہ چل گیا کہ بادشاہ نے اس کی گھڑی چوری کر لی ہے۔ مگر وہ خاموش رہا ۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد چرچل نے ایک ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ جب شہنشاہ جائے تو اسے بتا دیں کہ چوری کی ہوئی گھڑی واپس کر دے۔

میٹنگ کے بعد جب بادشاہ روانہ ہوا تو ملازم نے وہی کیا جو وزیراعظم نے اسے حکم دیا تھا۔فاروق نے مکمل لا علمی کا اظہار کیا اور واپس چلا گیا ۔ چند دنوں کے بعد چرچل کو یہ گھڑی ایک پارسل کی صورت میں نامعلوم شخص نے واپس بھجوا دی ۔ پارسل پر بھیجنے والے کا نام اور پتہ بالکل غلط لکھا ہوا تھا۔ سفارتی سطح پر جب چرچل نے اپنی کابینہ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو اس کے وزیر ششدر رہ گئے۔ کہا ں ایک شہنشاہ اور کہا ایک اہم سرکاری میٹنگ میں چوری کی واردات ۔ بہرحال یہ واقعہ اخبارات کی زینت بنا ۔ مگر فاروق نے کسی قسم کا اقرار یا انکار نہیں کیا۔ 

 حیران نہ ہوں۔ اس سے اگلا واقعہ اور بھی ادنیٰ ہے ۔ 1944میں ایران کے بادشاہ رضا شاہ فوت ہوا۔ اس کے جنازے پر پوری دنیا سے وزراء اعظم ‘ صدور اور بادشاہ افسوس کے لیے آئے۔ ان میں شہنشاہ فاروق بھی شامل تھا۔رضا شاہ کے تابوت پر سونے کے تمغے اور بیش قیمت تلواریں پڑی ہوئی تھیں۔ حکمران بڑے احترام سے رضا شاہ کی آخری رسومات پوری کر رہے تھے۔ فاروق نے تابوت پر پڑی ہوئی ایک بیش قیمت تلوار کامیابی سے چوری کر لی۔ اسے اپنے ساتھ مصر لے گیا۔ یہ واقعہ بھی ایرانی حکومت کو پتا چل گیا۔

تلوار فاروق کے خفیہ کمرے سے اس کی جلا وطنی کے بعد برآمد ہوئی۔ شاہ فاروق فرانس یا کسی بھی ملک میں شاپنگ کرنے جاتا تو مارکیٹ سے چیزیں خریدتے خریدتے کچھ نہ کچھ چوری کر لیتا تھا۔اس کی سرشت میں شامل ہو چکا تھا۔ کہ وہ لوگوں کو اپنے چوری کے جوہر دکھائے ۔ بعد میں فاروق قہقہے لگاتا تھا کہ کتنی کامیابی سے اپنے اردگرد کے لوگوں اور ملنے والوں کو بیوقوف بنایا ہے۔ 

ذرا اندازہ فرمائیں کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل انسان اپنی چوری کی عادت پر قابو نہ پا سکا ۔ اور مرتے دم تک وہ یہی کام کرتا رہا۔ مجھے یہ عادت پاکستان کے ہر مقتدر طبقے کے اندر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مصر کا بادشاہ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا کر ذہنی تسکین حاصل کرتا تھا۔ مگر ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں مقتدر طبقہ نے ڈھٹائی ‘ عیاری اور مکاری سے ملک کو پاؤں تلے روندا۔ ہمارا مقتدر طبقہ کرپشن کے کھیل میں مصر کے بادشاہ کا بھی استاد ہے۔

عجیب بات ہے کہ حکومتی خزانہ تو ہمیشہ خالی رہتا ہے ۔ مگر چند خاندانوں کے خزانے اتنے بھر جاتے ہیں کہ انھیں اپنے گھروں کے اندر تہہ خانے بنانے پڑتے ہیں تاکہ ناجائز دولت چھپائی جا سکے۔ گزشتہ سیاسی تاریخ میں اگر مقتدر طبقے کے مالیاتی رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ شدید ذہنی بیماری کا شکار رہی۔ اپنی دولت کا بذات خود انھیں اندازہ نہیں رہا۔ مگر ان کے بعد ان کی اولادیں بھی اسی ہوس زر میں مبتلا نظر آئیں ۔ دراصل دولت کمانے کی اور ناجائز دولت جمع کرنے کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ مقتدر طبقے میںتو یہ بیماری اپنے عروج پر ہے ۔

گمان تھا کہ پہلی نسل بے پناہ کرپشن کر لے تو اس سے اگلی نسل کی طمع بھر جاتی ہے اور وہ مالیاتی لوٹ مار کو کبھی اپناتے نہیں ہیں۔ پاکستان کا قیامت خیز سچ یہ ہے کہ یہ کلیہ بھی فیل ہو چکا ہے۔ کسی بھی فرد یا خاندان کا نام نہیں لینا چاہتا ۔ مگر ہر باشعور پاکستانی کو علم ہے کہ ان کی نظروں کی سامنے ‘ گزشتہ کئی دہائیوں سے لوٹ مار کر کے چند لوگ قارون کے خزانے تک پہنچنے کی تگ و دو کرتے رہے ہیں۔

حالت اتنی دگر گوں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری ہر حکومت سے کہتے رہے ہیں کہ خدارا کرپشن کو کم کیجیے۔ مگر بالائی طبقہ مکمل طور پر لالچ کی دلیل میں ڈوبا رہا۔ ضمیر نام کی کوئی چیز معلوم نہیں پڑتی۔ مجھے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ ہمارا ملک کبھی خوشحال اور مستحکم ہو سکتا ہے ۔ اس کی واحد واجہ وہ مقتدر طبقہ ہے جس کے سامنے مصر کا سابقہ بادشاہ فاروق ‘ طفل مکتب ہے!
 

Similar Posts