حکیم محمد الیاس خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اسی کالج کے طالبعلم رہے اور ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد انھوں نے اپنے ہم جماعت دوستوں سے رابطہ کیا اور ان سب کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگیوں کے اوراق کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔
یہ کام ان کے اپنے دوستوں اور ماحول سے محبت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ انھوں نے اپنے کالج میں ہونے والی سرگرمیوں پر سرسری نگاہ نہیں ڈالی ہے بلکہ بھرپور طریقے سے اپنے ہم جماعت اورکالج کے ساتھیوں کی شبانہ روز علمی و دینی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔
کتاب کا قاری شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ اپنے طلبا کو ایک ایسی تہذیب سے روشناس کراتا ہے یہاں صرف کتابوں کا علم بچوں کے ذہنوں تک پہنچانے کی تدریس نہیں کی جاتی ہے بلکہ باقاعدہ طور پر تعلیم و تربیت اور ایک اچھا مسلمان ایک اچھا شہری بنانے پر مکمل طور پر زور دیا جاتا ہے۔
کتاب پڑھنے کے بعد ایسے ایسے عالم باعمل حضرات کی اعلیٰ صلاحیتیں اور مخلوق خدا سے محبت، ایثار و قربانی کی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، اور یہ تمنا بیدار ہوتی ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم بھی جامعۃ العلوم منصورہ میں اپنی حیات کے چراغ کی لو علم وآگہی کی روشنی سے بڑھاتے اور تفکر کی ناؤ پر بیٹھ کر اس عارضی دنیا کی حقیقت کو جان سکتے۔
اللہ کی وحدانیت کا سبق دور دور تک پہنچاتے، پھر ہمارا بھی شمار مبلغ دین میں ہوتا، ہماری ایک ایسی شناخت ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا اور زیست کے شام و سحر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزرتے، جامعۃ العلوم کا صاف و شفاف ماحول، ایمانداری کے تقاضے، تلاوت قرآن پاک کی روح پرور صداؤں سے فیض یاب ہوتے۔
نورکی روشنی سے آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچاتے بے شک جہاں زندگی سیکھنے اور سکھانے کا ڈھنگ اسلامی اصولوں پر مروج ہوتا ہے، وہاں کی ہواؤں میں بھی نیکی اور سچائی کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ آپس میں محبت، یگانگت، اخوت اور صداقت کی فضا پروان چڑھتی ہے۔
حکیم محمد الیاس خان منصوری نے اپنے دوست احباب کے اوصاف حمیدہ اور ان کے علمی و دینی فضائل کو بہت عقیدت اور محبت کے ساتھ بیان کیا ہے، ساتواں باب جیسے ہیرے موتی لعل کہا ہے، یہ ہیرے، موتی ، لعل وہ شخصیات ہیں جنھوں نے کتابوں سے علم حاصل نہیں کیا ہے بلکہ اپنے اساتذہ سے باقاعدہ لیکچر کی شکل میں فیض اٹھایا ہے۔
انھوں نے قرآن کی تعلیم کی تفسیر سے آگاہ کیا ہے، زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھائے ہیں، بذریعہ اپنے علم و عرفان اور ذاتی زندگی کی آزمائشوں اور دکھ، سکھ کو درس و تدریس کی صورت میں طالب علموں کے اذہان کو روشنی بخشی ہے۔
انھوں نے مذکورہ باب میں تقریباً 164 بے مثال اور اہم شخصیات کا تذکرہ کیا ہے، ان شخصیات نے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج کی تعمیر و ترقی کے لیے دامے، درمے، سخنے، قدمے بھرپور طریقے سے تعاون کیا ہے، ان اعلیٰ حضرات کی اسلامی تعلیمات سے محبت اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے وہ امور انجام دیے ہیں جو ایک مسلمان کا فرض ہے، اسے ہر لمحہ اپنے مسلمان بھائیوں کی فلاح کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔
منصورہ میں قائم دینی درسگاہ میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی حیثیت اور مقام بے شک ہیرے موتیوں کی ہی مانند ہے۔ ان سچے موتیوں کی روشنی بیرون ممالک تک پہنچی اور نوآموز طالب علموں نے خوب استفادہ کیا۔
اس سبق میں پہلے نمبر پر پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق کا مفصل تعارف ملتا ہے جوکہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ دس اوراق میں ان کے علمی کارنامے جگ مگ کر رہے ہیں۔ مضمون کے قاری کو ان کی علمیت و قابلیت کا جب اندازہ ہوتا تو وہ ان کی کوشش، جدوجہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے۔
ان کے بلندی درجات کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اپنے ہاتھ بلند کر دیتا ہے، وہ سات سال تک معلم و تعلم کے مقدس رشتے میں بندھے رہے۔ ڈاکٹر حافظ احسان کا شمار عربی ادب کے نامور دانشوروں میں ہوتا ہے جو پاکستان میں قرآن فہمی اور عربی زبان کی درس تدریس کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، آپ کو ہر سال بیت اللہ کی زیارت اور حج کا برائے راست اردو ترجمہ بھی ٹی وی پر کرنے کا مرتبہ حاصل ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسز میں شرکت کا موقع محض اپنی قابلیت کی وجہ سے حاصل کیا، اس کے ساتھ ہی سترہ اٹھارہ برس شکاگو امریکا تراویح و تفاسیر کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔ حکومت پاکستان نے رمضان میں سڈنی آسٹریلیا تراویح کے لیے منتخب کیا۔
ان کی خوش قسمتی، اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تو دیکھیے کہ ان کا انتقال عمرے کی ادائیگی کے دوران ہوتا ہے اور مدفن کے لیے جنت البقیع کا قبرستان ملتا ہے، سبحان اللہ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری کا نام نامی بھی اپنی اعلیٰ علمی و تدریسی صلاحیتوں کے باعث اہمیت کا حامل ہے۔429 صفحات کی کتاب میں تقریباً 12ورق ڈاکٹر صاحب کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 1964 سے 1970 تک شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ میں تعلیم حاصل کی۔
جماعت اول سے انٹر تک ساتھ میں فاضل عربی اسی کالج سے پڑھ کر مادر علمی کا نام روشن کیا۔ آپ کی علمی خدمات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پی ایچ ڈی عربی زبان میں کیا، اعزازی مناصب سے بھی سرفراز ہوئے انھوں نے اپنی محنت اور شوق کے تحت نمایاں امور انجام دیے۔
وائس پریزیڈنٹ قرآن و سنت اکیڈمی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی میں تعینات کیا گیا۔ تحقیقی مقالہ ’’جدید عربی ادب فکر و فن کے آئینے میں‘‘ لکھنے پر جامعہ کراچی سے ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ سرآدم جی گولڈ میڈل، سلور میڈل، عرب ثقافتی ایوارڈ کے لیے یونیسکو کے پاکستان نیشنل کمیشن نے منتخب کیا۔ بہت سی کتب، عربی مقالات، تراجم کیے اور اللہ نے انھیں ان کی قابلیت اور مختلف محاذوں پر قابل قدرکام کرنے کی بدولت عزت و توقیر سے نوازا۔
محمد الیاس خان منصوری نے گلڈ کے روح رواں اور موجودہ صدر جلیس سلاسل کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جلیس سلاسل بھی ایک منصوری ہیرے ہیں جوکہ ایک عظیم مہاراجہ رائے پور یوپی انڈیا اور راجاؤں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، نامور صحافی، مصنف و ادبی تعلیمی تحقیقی و تخلیقی شخصیت ہیں۔
انھیں فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سب سے پہلے انٹرویو لینے کا بھی شرف حاصل ہے۔ انھوں نے منصورہ سے 1960، 1962 تک تعلیم حاصل کی۔ جلیس سلاسل نے بہت اہم کتابیں تصنیف کیں، جن میں کورٹ مارشل اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اورکہوٹہ پر امریکا، بھارت اسرائیل اور ’’ نام نہاد مقتدر پاکستانیوں کے حملے‘‘ شامل ہیں۔
مصنف نے اورینٹل کالج کا شاگرد ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔ اپنے قارئین کو مکمل معلومات فراہم کی ہے۔ اپنا بچپن، کالج اور اس کا نصاب، تربیتی نظام، مدرسہ البنات اور لائبریری وغیرہ میں اتنی اعلیٰ اور معلومات سے بھرپورکتاب تصنیف کرنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔