متحدہ عرب امارات میں جنسی جرائم اور جسم فروشی کی سزاؤں میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئیں۔
خلیج ٹائمز کے مطابق یو اے ای حکومت نے جرائم اور سزاؤں کے قانون کی بعض شقوں میں ترامیم کا اعلان کیا ہے، جن کے تحت بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر مزید سخت سزائیں نافذ کی گئی ہیں۔
نئی ترامیم کے مطابق کوئی بھی شخص جس کی عمر 18 سال یا اس سے زائد ہو، اگر وہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے، یا اسی عمر کے کسی فرد کے ساتھ ہم جنس جنسی عمل میں ملوث ہوتا ہے، تو اسے کم از کم 10 سال قید اور ایک لاکھ درہم سے کم نہ ہونے والا جرمانہ ادا کرنا ہوگا، چاہے رضامندی کا دعویٰ ہی کیوں نہ کیا جائے۔
یو اے ای میں جمعے کی اذان و نماز کا نیا نظام متعارف
قانون میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ 16 سال سے کم عمر فرد کی رضامندی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم 18 سال سے کم عمر افراد اگر آپس میں رضامندی سے کسی جنسی عمل میں ملوث پائے گئے تو ان پر جووینائل قوانین کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یو اے ای حکومت نے بدکاری یا جسم فروشی پر اکسانے، ترغیب دینے یا ملوث کرنے کے جرائم پر بھی سزائیں سخت کر دی ہیں۔ ایسے جرائم میں کم از کم دو سال قید اور جرمانہ مقرر کیا گیا ہے، جبکہ اگر متاثرہ فرد 18 سال سے کم عمر ہو تو سزا میں مزید سختی کی جائے گی۔
متحدہ عرب امارات نے لاٹری اور جوئے کیلئے اتھارٹی قائم کردی
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم نابالغوں کو استحصال، زیادتی اور نقصان سے بچانے کے لیے یو اے ای کے پختہ عزم کی عکاس ہیں۔ حکومت کے مطابق یہ قوانین قانون کی بالادستی کو مضبوط کریں گے اور معاشرے کے کمزور طبقوں کو بہتر تحفظ فراہم کریں گے۔
مزید ترامیم کے تحت عدالتی نظام کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سنگین جرائم میں سزا یافتہ افراد کے مجرمانہ رجحان کا جائزہ لے سکے۔ اس مقصد کے لیے سزا کے آخری چھ ماہ میں مجرم کے طبی، نفسیاتی اور سماجی معائنے کی اجازت دی گئی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں’عیدی’ پر پابندی عائد
ایک اور ترمیم کے مطابق اگر کسی مجرم میں سزا مکمل ہونے کے بعد بھی خطرہ موجود ہو تو پبلک پراسیکیوشن عدالت سے اضافی حفاظتی اقدامات کی درخواست کر سکتی ہے۔
ان اقدامات میں بحالی مراکز، علاج کے اداروں میں رکھا جانا، نگرانی یا الیکٹرانک مانیٹرنگ شامل ہو سکتی ہے، تاہم حتمی فیصلہ عدالت کی صوابدید ہوگا۔
ریاستی سلامتی سے متعلق جرائم کے حوالے سے بھی عدالت کو اختیار دیا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی درخواست پر بعض کیسز میں قید کی سزا معطل کی جا سکے، بشرطیکہ مجرم کی اصلاح کے واضح شواہد موجود ہوں۔ حکومت کے مطابق یہ اقدام ریاستی سلامتی کے تحفظ اور مجرموں کی بحالی کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔