مذکورہ پریس کانفرنس ایک ہی شخصیت اور ایک ہی سیاسی جماعت کے محور و مرکز پر تھی ۔ لیفٹیننٹ جنرل ، احمد شریف چوہدری، کی مذکورہ پریس کانفرنس کے6 دن بعد جنرل (ر) فیض حمید کو بھی سزا سنا دی گئی ہے :14سال بامشقت کی سزا ۔ فیض حمید پاکستان کی اعلیٰ ترین اور طاقتور ترین انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ تھے ۔
اُن کا ملازمانہ دَور مگر کئی بزنس پیشہ افراد ، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ڈر ، دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا ۔ بنیادی اور اصولی طور پر اُن کی دھاک تو وطنِ عزیز کے دشمنوں پر بیٹھی رہنی چاہیے تھی ، مگر اُنھوں نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات سے متجاوز ہو کر اُن افراد پر دھاک جمانے اور اپنے ذاتی مفادات سمیٹنے کی مبینہ کوششیں کیں جو اُنہیں ہر گز نہیں کرنی چاہیے تھیں۔اب وہ 15مہینوں کے طویل مقدمات اور متعدد سماعتوں کے بعد لمبی سزا کے مستوجب قرار پائے ہیں ۔
گذشتہ پندرہ مہینوں کے دوران کئی اطراف و جوانب سے، دبے الفاظ میں، کہا جارہا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کو اوّل تو سزا ملے گی ہی نہیں ، اور اگر مل بھی گئی تو معمولی سے ہوگی : محض ٹوکن!کہنے والے جَلی اور خفی الفاظ میں یہ کہتے رہے کہ ’’اپنے پیٹی بھائی کو سزا سنانا اور سزا دینا سہل نہیں ہے۔‘‘جتنے منہ ، اُتنی باتیں !
مگر 11دسمبر2025 کی دوپہر کو جنرل (ر) فیض حمید کو 14سال کی سزائے بامشقت سنا کر فوجی عدالت نے سب کے منہ بند کر دیے ۔ سب افواہیں اور شبہات دفن ہو گئیں ۔ اِس تازہ ترین فیصلے نے بِلا مبالغہ افواجِ پاکستان کا وقار اور اعتبار بلند تر کر دیا ہے۔ جو الزامات فیض حمید کی ذات کے گرد گردش کاٹ رہے تھے۔
اِن کا انجام ایسی ہی سزا کی صورت میں ہونا چاہیے تھا ۔ اور ایسا ہُوا بھی ۔ افواجِ پاکستان نے اِس فیصلے کی شکل میں ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اُن کے ہاں اقربا پروری کا چلن ہے نہ سفارش کی جادُو گری۔ اور یہ بھی کہ افواجِ پاکستان میں کوئی بندہ ہے نہ کوئی بندہ نواز۔افواجِ پاکستان نے اپنے سابق جنرل کو 14سال کی سزا سنا کر بقول اقبالؒ ثابت کیا ہے :صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب! اِس سزا کی حمائت میں نون لیگی قیادت نے بھی بیانات دیے ہیں اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے بھی ۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے ، سہیل آفریدی، نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق بیان دیا ہے ، مگر نہیں بولے تو نواز شریف و شہباز شریف نہیں بولے اور نہ ہی آصف علی زرداری اور نہ ہی محترمہ مریم نواز شریف ۔ آصف علی زرداری تو شائد اس لیے نہیں بولے کہ صدرِ مملکت ہیں اور شہباز شریف شائد اس لیے نہیں بولے کہ وزیر اعظم ہیں ، مگر نواز شریف کو تو بولنا چاہیے تھا۔ بیان میں ایک لفظ، ایک جملہ ہی بول دیتے ۔نواز شریف تو ابھی پچھلے مہینے یہ کہتے ہُوئے سنائی دیے تھے کہ ’’اگر بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے تو اُن لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جو بانی کو اقتدار میں لائے ۔‘‘ اور اب مبینہ طور پر بانی کو اقتدارمیں لانے والوں میں سے ایک ، فیض حمید، احتساب کے عمل سے گزر کر سزا یاب ہُوئے ہیں تو نواز شریف کو کھل کر لب کشائی کرنی چاہیے تھی ۔ نواز شریف کم از کم یہ تو کہہ سکتے تھے : مملکتِ خداداد میں اگر ایک منتخب وزیر اعظم کو عدالتیں سزا سنا کر تختہ دار پر لٹکا سکتی ہیں تو فیض حمید کی سزا بھی کوئی اچنبھا نہیں ہے۔ اور اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دو وزرائے اعظم کو مبہم سے الزامات کے تحت عدالتیں اقتدار سے محروم کر سکتی تھیں تو جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی جانے والی سزا کوئی حیران کن اور انوکھی سزا نہیں ہے۔ مگر نواز شریف مہر بہ لب ہیں۔
ممکن ہے جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی گئی 14سالہ سزا بامشقت میں آیندہ ایام میں کی جانے والی ممکنہ اپیلوں میں کچھ تخفیف بھی ہو جائے ، مگر اِس کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں کئی برس لگ جائیں گے ۔ اِس کے لیے مجرم فیض حمید اور اُن کے اہلِ خانہ کو صبر، برداشت اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔
صبر و تحمل کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے ۔ اگر وطنِ عزیز کی بلند پایہ اور معزز عدالتیں سزا یافتہ مجرم جنرل (ر) فیض حمید کی سزا میں کمی کر بھی دیتی ہیں تو پاکستانی عوام کو یہ اقدام بھی قابلِ قبول ہوگا۔اِس سے قبل بھی پاکستان کی مسلح افواج میں کئی کورٹ مارشل کیے گئے۔ جونئیر و سینئر عہدیداروں کی سزائیں عدالتوں کے توسط سے تخفیف کی عمل سے گزر چکی ہیںکہ سزا کے بعد اپیل مجرم کا بنیادی انسانی و قانونی حق ہے ۔ تازہ تازہ سزا یافتہ فیض حمید کو بھی ہوگا اور ہے ۔
غلطیوں ، خطاؤں اور افواجِ پاکستان کے مروجہ سخت ڈسپلن کی اساس پر اگر افواجِ پاکستان کے ایک سابق تھری اسٹار جنرل کورٹ مارشل کے بعد سزا یافتہ ہُوئے ہیں تو یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ بھارت میں بھی اب تک ایک سے زائد تھری اسٹار جنرلز کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے اور وہ سزا بھی پا چکے ہیں ۔مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل پی کے راٹھ ، لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش اور لیفٹیننٹ جنرل ایس کے ساہنی ۔اول الذکردونوں بھارتی سینئر جرنیلوں کو 2011میں بذریعہ جنرل کورٹ مارشل سزا ہُوئی ۔ دونوں ایک ہی الزام کے تحت مقدمے اور ٹرائل سے گزارے ۔ دونوں کو یکساں ہی سزائیں ہُوئیں۔ بعد ازاں بھارتی فوجی عدالتوں میں کئی اپیلوں کے زریعے دونوں سزا یافتہ جرنیلوں کی سزاؤں میں تخفیف بھی ہُوئی ، لیکن اُنہیں بھاری پنشن اور مراعات سے محروم ہونا پڑا ۔بھارتی ملٹری کلب میں اُنہیں جو ندامتیں اُٹھانا پڑیں، وہ الگ تھیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مذکورہ بھارتی لیفٹیننٹ جنرلز پر عین اُس وقت مقدمہ چلایا گیا جب وہ حاضر سروس تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب بھی ۔
لیفٹیننٹ جنرل پی کے راٹھ اور لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش پر ایک ہی سنگین الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ۔الزام یہ تھا کہ دونوں ملزم تھری اسٹار جنرلز نے فوجی کی ملکیت زمین ایک پرائیویٹ ڈولپر کو فروخت کر دی تھی اور ذمے داران فوجی افسروں کی مرضی سے بالا بالا ڈویلپر کو این او سی بھی جاری کر دیا تھا۔یہ زمین بھارت کے صحت افزا مقام ، دارجلنگ، میں تھی اور اس کا رقبہ70ایکڑ تھا۔ سزا یافتگی کے بعد دونوں کی سزائیں اور جرمانے بھارتی فوجی عدالتوں ہی کے ٹربیونل میں خاصی کم کر دی گئی تھیں۔
تخفیف کے باوجود سزا یافتہ جرنیلوں کی پنشنوں اور اعلیٰ مراعات سے محروم ہونا پڑا تھا۔اور لیفٹیننٹ جنرل ایس کے ساہنی کا جنرل کورٹ مارشل اُس وقت ہُوا جب وہ ریٹائر ہو چکے تھے ۔ جنرل ساہنی پر الزام یہ تھا کہ اُنھوں نے سیاچن کے بلند ترین اور یخ بستہ محاذ پر بھارتی فوجیوں کو فراہم کیے گئے منجمد گوشت اور خشک راشن میں ہیرا پھری کرکے کروڑوں روپے خرد برد کیے ہیں ۔ سزا یافتگی کے بعد جنرل ایس کے ساہنی نے بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل کی ، جہاں سے اُنہیں یوں ریلیف ملا کہ اُن کو دی گئی سزا ختم کر دی گئی ۔ انڈین سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ جنرل ساہنی کا مقدمہ سُننے اور اُنہیں سزا سنانے کے لیے جو جنرل کورٹ مارشل کے ارکان متعین کیے گئے تھے، اُن کی کمپوزیشن غلط تھی : خاص طور پر جج ایڈووکیٹ جنرل کی !
کہا جاتا ہے کہ 2001سے2025 تک بھارتی فوج کے جن جونئیر اور سینئر عہدیداروں کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزائیں دی گئی ہیں، ان کی تعداد 8ہزار سے زائد ہے ۔ حال ہی میں41 بھارتی فوجی افسروں کو جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے سخت سزائیں سنائی گئی ہیں ۔ ان پر الزام تھا کہ اُنھوں نے بھوٹان کی بلیک مارکیٹ میں اپنے ہتھیار اور گولہ بارُود فروخت کر دیے تھے ۔