دی نیو یارک ٹائمز کی تحقیق کے مطابق،گنگا جمنا کو پانی فراہم کرنے والے گلیشیئرز پر ایک خفیہ نیوکلیئر جنریٹر چھپا ہوا ہے، جو ریڈیوایکٹو پلوٹینیم خارج کر سکتا ہے۔ یہ جنریٹر بھارت اور امریکا کے خفیہ آپریشن کے دوران 1965 میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر نصب کیا گیا تھا۔
امریکا کی سی آئی اے نے ہمالیہ کے پہاڑ نندا دیوی پر ایک خفیہ نیوکلیئر جنریٹر نصب کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ چین کے میزائل ٹیسٹوں کی نگرانی کی جا سکے۔ لیکن اچانک آنے والے برفانی طوفان کے باعث نیوکلئیر جنریٹر گم ہوگیا۔
اس مشن میں امریکی اور بھارتی کلائمبرز کی ایک ماہر ٹیم شامل تھی، لیکن اچانک آنے والے برفانی طوفان کی وجہ سے مشن مکمل نہ ہو سکا۔ جنریٹر، جس میں پلوٹینیم-238 اور پلوٹینیم-239 شامل تھا، برف کی چٹان پر چھوڑ دیا گیا اور اگلے موسم بہار جب ٹیم واپس گئی تو یہ غائب ہو چکا تھا۔
نیویارک ٹائمز جریدے کے مطابق جنریٹر، جسے SNAP-19C کہا جاتا ہے، آج بھی نندا دیوی کے گلیشیئرز میں کہیں دبا ہوا ہے، جو گنگا اور جمنا کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اگر یہ جنریٹر کسی کو مل جائے تو ریڈیوایکٹو پلوٹینیم تابکاری اور ممکنہ ”ڈرٹی بم“ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ پلوٹینیم انسان کے اندر جانے پر کینسر اور اعضاء کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔
سی آئی اے کے سابق اہلکاروں اور مشن کے زندہ بچ جانے والے کلائمبرز کے مطابق، گنگا پر لاکھوں افراد کا انحصار ہے اور اس کا خطرہ انتہائی سنگین ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا کا وسیع بہاؤ تابکاری کو کم کر سکتا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلی اور گلیشیئر کے پگھلنے سے خطرہ بڑھ رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشن کی منصوبہ بندی انتہائی خفیہ اور اعلیٰ سطح پر ہوئی تھی، جس میں جعلی سائنسی سرٹیفیکیٹس اور امریکی و بھارتی انٹیلی جنس کی منظوری شامل تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنریٹر میں موجود PU-239 تابکار مادہ ہے، جو لاکھوں انسانوں کی زندگی کے لیے شدید خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث اب یہ جنریٹر زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، اور اگر یہ پانی کے بہاؤ میں شامل ہوگیا تو دریاؤں کی نذر ہو کر انسانی اور ماحولیاتی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔