امریکا نے مزید 20 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگادیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے منگل کے روز امریکا میں داخلے اور امیگریشن سے متعلق سفری پابندیوں میں نمایاں توسیع کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت مزید 20 ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ سفری دستاویزات رکھنے والے افراد کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔

امریکی حکام کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پانچ مزید ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کی مکمل پابندی عائد کی گئی ہے، جبکہ 15 دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے جزوی سفری پابندیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے افراد پر بھی مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکا میں داخلے کے معیار کو مزید سخت بنانے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔

حکام کے مطابق حالیہ دنوں میں تھینکس گیونگ کے موقع پر واشنگٹن کے قریب دو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد، جس میں ایک افغان شہری پر الزام عائد کیا گیا، سفری پابندیوں میں مزید اضافے کا عندیہ دیا گیا تھا۔

ٹرمپ کا بی بی سی پر ہتکِ عزت کا مقدمہ، 10 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ

تاہم انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ افراد جو پہلے ہی امریکی ویزے رکھتے ہیں، قانونی مستقل رہائشی ہیں، یا مخصوص ویزا کیٹیگریز جیسے سفارت کاروں، کھلاڑیوں یا ان افراد میں شامل ہیں جن کی آمد کو امریکا کے مفاد میں سمجھا جاتا ہے، ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہوں گے۔ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ نئی پابندیاں عملی طور پر کب نافذ ہوں گی۔

یاد رہے کہ جون میں صدر ٹرمپ نے 12 ممالک کے شہریوں پر مکمل سفری پابندی اور سات دیگر ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ اس فہرست میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، ایکویٹوریل گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل تھے، جبکہ برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا پر سخت شرائط عائد کی گئی تھیں۔

تازہ اعلان کے مطابق اب جن ممالک پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے ان میں برکینا فاسو، مالی، نائجر، جنوبی سوڈان اور شام شامل ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کی دستاویزات پر مکمل پابندی کو فلسطینیوں کے خلاف تازہ ترین امریکی سفری اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ جنوبی سوڈان پہلے ہی سخت سفری پابندیوں کی زد میں تھا۔

جزوی پابندیوں کی فہرست میں 15 مزید ممالک شامل کیے گئے ہیں جن میں انگولا، اینٹیگوا اینڈ باربوڈا، بینن، آئیوری کوسٹ، ڈومینیکا، گیبون، گیمبیا، ملاوی، موریطانیہ، نائجیریا، سینیگال، تنزانیہ، ٹونگا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔ یہ پابندیاں سیاحتی ویزوں کے ساتھ ساتھ مستقل رہائش کے خواہش مند افراد پر بھی لاگو ہوں گی۔

امریکی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ان ممالک میں بدعنوانی، جعلی یا ناقابلِ اعتماد سرکاری دستاویزات، اور مجرمانہ ریکارڈ کے مسائل پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے شہریوں کی جانچ پڑتال مشکل ہو جاتی ہے۔

حکام نے یہ بھی کہا کہ بعض ممالک میں ویزا کی مدت ختم ہونے کے باوجود قیام، اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار، یا حکومتی عدم استحکام جیسے عوامل بھی اس فیصلے کی بنیاد بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امیگریشن قوانین کے نفاذ، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

افغان شہری، جس پر نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کا الزام ہے، اس نے قتل اور حملے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد انتظامیہ نے امیگریشن سے متعلق کئی مزید سخت اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ان ممالک کے شہریوں پر بھی اضافی پابندیاں شامل ہیں جو پہلے ہی امریکا میں موجود تھے۔

جرمنی کا افغان مہاجرین کے لیے پناہ گزین پروگرام ختم کرنے کا اعلان

سفری پابندیوں میں اس توسیع پر ناقدین کی جانب سے سخت ردعمل کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر وسیع پیمانے پر مختلف ممالک کے لوگوں کو اجتماعی طور پر امریکا سے دور رکھا جا رہا ہے۔

انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پراجیکٹ کی نائب صدر لاری بال کوپر کے مطابق یہ فیصلہ قومی سلامتی کے بجائے لوگوں کو ان کے آبائی ملک کی بنیاد پر بدنام کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔

انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ بعض ممالک جیسے لاؤس اور سیرا لیون پر پہلے سے عائد جزوی پابندیاں مزید سخت کی گئی ہیں، جبکہ ترکمانستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں حالات میں بہتری کے باعث کچھ پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں۔ جون میں اعلان کی گئی باقی تمام پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی۔

فلسطینیوں سے متعلق نئے فیصلے کے بارے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ میں امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیمیں سرگرم ہیں اور ان علاقوں میں حالیہ جنگ کے باعث جانچ پڑتال کے نظام کو نقصان پہنچا ہے۔

انتظامیہ کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر فلسطینی اتھارٹی کے پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے امریکا میں مستقل قیام پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔

Similar Posts