بقائے حیات کا قانون ہی حقیقت

انسان کے انسانیت کے دورکی تاریخ پانچ یا چھ ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے جب کہ انسان کے حیوانی دورکی تاریخ لاکھوں اورکروڑوں سال پرانی ہے۔ اس دور میں بقائے حیات کا قانون ہی اصل اور تلخ حقیقت ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ قانون ازل سے ہے اور ابد تک یہی قانون رہے گا۔

اس قانون کے تحت سب سے مضبوط کا زندہ باقی رہنا ہی قانون فطرت قرار پایا اورکمزور نامساعد حالات میں وقت کے چکر میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی قانون آج بھی مختلف اشکال میں دنیا میں بہت سی جگہوں بالخصوص ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں لاگو ہے۔

انسان نے جیسے جیسے اپنے لیے معاشی آسودگی کے ذرایع پیدا کیے اور ساتھ ساتھ شعورکی منازل بھی طے کرتا گیا تو پھر اس نے بدلتے حالات میں اپنی حکومت بچانے کے لیے اپنے معاشرے میں سماجی انصاف کا تصور پیش کیا جس سے کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ اب انسان نے بقائے حیات کے قانون کو قابوکرلیا ہے اور اب صرف طاقتور ہی زندہ نہیں رہے گا بلکہ اب جینے کے مواقعے سب کے لیے یکساں ہیں۔

یہی خیال کمزور، محروم اور غیر مراعات یافتہ طبقے کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ اب بھیڑیا بھیڑوں کی کھال میں آگیا ہے۔

ہرچندکہ ترقی یافتہ ممالک کی عوام میں سماجی انصاف کا تصورکافی جڑ پکڑ چکا ہے لیکن اگر اس کوکسی بھی بین الاقوامی ادارے میں اقوام عالم کی ترتیب کے تحت دیکھیں گے تو وہاں بھی یہ قانون ترقی یافتہ اقوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتا اور سہولت فراہم کرتا نظر آتا ہے اور دنیا کے مراعات یافتہ طبقے کی نمایندگی کرتے نظر آتا ہے۔

غریب اورکمزور ممالک کی وہاں وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غیر مراعات یافتہ طبقے کی ہے۔ ہم میں اور سماجی انصاف میں ابھی صدیوں کا فاصلہ ہے جو ہم نے اپنے خون اور پسینے سے طے کرنا ہے۔ہمارے نظام سے وابستہ بہت سے لوگ ہوسکتا ہے کہ ان باتوں سے متفق نہ ہوں کیونکہ ان کے نزدیک تو شیر بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں۔

وہ یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ اس کے بعد شیر بکری کو کھا کر گھر چلا جاتا ہے اور اگلے دن گھاٹ پر نئی بکری ہوتی ہے۔ اگر اس نظام کی اصل شکل دیکھنی ہے تو قومی اسمبلی کی وہ کارروائی دیکھیے کہ جس میں ایوان میں ملنے والے پچاس ہزار، جی ہاں صرف پچاس ہزارکے لیے ایک درجن ہاتھ اٹھ جاتے ہیں اور کتنے ہاتھ چاہتے ہوئے بھی فضا میں بلند نہ ہوسکے۔

ان ایک درجن ہاتھوں میں گیارہ ہاتھوں کو تو پتہ تھا کہ یہ پیسے ان کے نہیں ہے لیکن انھوں نے سوچا ہوگا کہ شاید مل جائے۔ بات بہت کڑوی ہوجائے گی لیکن یہ کونسا قومی اسمبلی میں بولا گیا، پہلا جھوٹ تھا۔ یقین نہ آئے تو قائدین کی تقاریر سن لیجیے۔

جس نظام میں قاضی القضاہ خود شراب پکڑے اور وہ لیبارٹری میں جاکر شہد میں تبدیل ہوجائے، اب یا تو قاضی کو شہد اور شراب کا فرق نہیں پتہ یا پھر اس کو نظام کی سمجھ نہیں جو طاقتورکے لیے الگ اور کمزوروں کے لیے بالکل الگ ہے۔

اس ملک کی تاریخ میں تو قاضی القضاہ کو خود سڑکوں پر اپنے لیے انصاف مانگتے دیکھا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سماجی انصاف ان کا طرز زندگی بن چکا ہے۔ ان کا اپنا معاشرہ آج بھی گورے کالے اور دیگر تعصبات میں پھنسا ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں سے حالات پھر بھی بہتر ہے۔

غزہ، بوسنیا اور دیگر جگہوں پر ہم نے اسی مہذب دنیا کا دوغلا چہرہ دیکھا ہے۔ ہمارے یہاں جب بھی مراعات یافتہ طبقے کے کسی فرد سے محروم طبقے کے فرد یا افراد کا خون ہوا ہوں تو قانون مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔

قانون اندھا ضرور ہے لیکن ناسمجھ نہیں ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا ہمارے ملک میں کائنات کا بقائے حیات کا قانون ابھی تک لاگو نہیں ہے؟ تمام کمزور مخلوقات کے لیے آسان راستہ یہی ہے کہ روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ ہی مر جائے، کیونکہ اس مراعات یافتہ طبقے نے قانون کو توڑ مروڑ کر اپنے فائدے کے سانچے میں ڈھال ہی لینا ہے۔

یہ تو مذہب کو بھی استعمال کر کے خون بہا دینے کو تیار ہوجاتے ہیں اور جب محروم طبقے کو خون بہا کی ادائیگی کی جاتی ہے تو ہر کوئی اس کو حاصل کرنے کے لیے مزید خون بہانے کو تیار نظر آتا ہے۔

آج کل خونی رشتے میں جب تک خون نہ بہے لوگ اسے خونی نہیں مانتے۔ موجودہ دور میں خونی رشتے ہی سب سے خونخوار ہے۔ ہم چونکہ ابھی بھی قبائلی اور جاگیرداری ماحول میں رہتے ہیں کہ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس، گائے، اونٹ، بکرا، بکری اور سب کچھ اسی کا ہے۔

اسی لیے طاقتور فرد تمام قانون سے بالاتر ہوتا ہے اورکوئی نہ کوئی شق کے ذریعے اس کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور شق نہ ہوں تو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے لیکن اگر فرد کمزور ہوں تو پھر یہی قانون بالاتر ہوجاتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ لوگوں کو اس تحریر میں سچ کا تناسب کچھ زیادہ لگے ویسے بھی سچ نمک کی مانند ہے تھوڑا ہو تو ذائقہ دیتا ہے اور زیادہ ہوجائے تو حلق کاٹ دیتا ہے۔

حق تلفی اور قانون شکنی کے جتنے واقعات اس ملک میں ہوچکے ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ رکتا نظر بھی نہیں آرہا تو آپ اس تحریر کو گشتہ واقعات کا نوحہ سمجھے یا اگلے آنے والے واقعے کا پیش لفظ، یہ میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔

آپ کو پتہ ہے کہ معجزہ کسے کہتے ہیں؟ جب کائنات کے تمام قوانین تھوڑی دیرکے لیے تھم جائے اور ایسا کچھ ہوں جو ان تمام قوانین کا الٹ ہوں تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ معجزے اور عذاب میں نقطہ نظر کا فرق ہے۔

سمندر کا راستہ دینا اگر حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے معجزہ تھا تو یہی چیز فرعون اور اس کے لشکر کے لیے عذاب تھا۔ جب وقت آئے گا تو ہم نے کہاں کھڑے ہونا ہے اس کا فیصلہ ابھی کرنا ہوگا، کیونکہ ریاست کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔

Similar Posts