بہت سے ماہ و سال بیتے جب ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دور اذکار افسانے‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا تھا اور اب ایک طویل عرصے کے بعد ایک خوبصورت ناول کی اشاعت نہ صرف یہ کہ مصنف کے لیے بلکہ ان کے دوست احباب کے لیے بے حد خوشی کا باعث بنی ہے۔
گزشتہ شب بندوبست کی تقریب رونمائی آن لائن پروفیسر عامر فہیم نے اپنے چینل عامر فہیم شو میں کرنے کا اہتمام کیا۔ عامر فہیم شو ایک انٹرنیشنل ٹاک شو ہے جو ڈائریکٹ USA سے کیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ اعزاز کی بات ہے۔ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار شرکت کا موقع ملا۔
ناول ’’بندوبست‘‘ پر بات کرنے کے لیے ڈاکٹر ارشد رضوی، راقم السطور، خالد معین اور طارق رئیس فروغ شریک ہوئے مذکورہ ناول بھی فروغ پبلشر کی اشاعت ہے اس کا سرورق سید شارق رئیس کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مقررین نے بہت بامعنی اور ادب کے عالمی تناظر میں اس کا جائزہ لیا۔ مبصرین نے ناول کو ایک خاص موضوع پر تحریر کردہ ناول قرار دیا۔
میری رائے کے مطابق ناول بندوبست اور ان کے مطبوعہ افسانوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ مصنف کا ایک افسانہ ’’تین میں نہ تیرہ میں‘‘ مجھے آج تک یاد ہے، کھوئے کھوئے اور خود کلامی میں مبتلا کردار قاری کے لیے پڑھنے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔
ناول کا انداز بیاں بھی مختلف نہیں ہے، ذومعنی فقروں نے قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے وہ غور و خوض کرتا ہے، تفکر کے رنگ اس پر غالب آ جاتے ہیں، چند جملے ملاحظہ فرمائیے:
کون شکار ہوا؟ کس کو شکار کیا گیا اور کس نے شکار کیا؟ درج بالا مکالموں نے قاری کو تھوڑی دیر کے لیے بھول بھلیوں میں بھٹکا دیا ہے وہ آگے بڑھنے کے بجائے مکالموں کی معنویت اور بھید بھری تحریر میں کھو سا جاتا اس کا تجسس مزید پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
اسی انداز میں ناول آگے بڑھتا ہے چند جملے اور ’’کہا جاتا ہے ایک خوفناک قصے کی کہانی کی طاقت ایک معمولی نظم نے چھین لی۔
قصے نے جس قصے میں جنم لیا، نظم کی پیدائش اس جگہ کی نہیں تھی۔ ایک دوسرے پیراگراف سے چند فقرے جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
’’وہ گیت جس مقام پر تخلیق ہوا، اس مقام پر اس گیت پر سر دھننے والا موجود نہیں تھا، اس گیت کو لکھنے والا بے اولاد تھا اور اس گیت کو گانے والا کئی بچوں کا باپ تھا، اسے ایک بچے کی بینائی چھن جانے کا خوف لاحق رہتا تھا۔ اس خوف کی وجہ سے کوئی بھی معقول کام کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔
بقول مقررین کے یہ انداز تحریر جدید ناول نگاری، فن میں آتا ہے، کہانی، مکالمے، منظر نگاری ناول کے تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں لیکن طرز نگارش جدا رنگ کے پیراہن میں ملبوس نظر آتاہے۔
مصنف نے تو اپنا کام پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے، اب قاری کا فرض ہے کہ وہ ان گتھیوں کو سلجھائے اور معانی و مطالب سے آگاہ ہو کر یک گو نہ تسکین حاصل کرے۔
زیب اذکار کی تحریر کا خاصا یہ بھی ہے کہ مزاح کا دھیما دھیما رنگ جابجا نظر آتا ہے، شائستگی اور شگفتگی بھی تحریر کے قالب میںاپنی جگہ بنا لی ہے اس طرح پڑھنے والے محظوظ ہوئے بنا نہیں رہتے ہیں۔
ساتھ میں حیرت و استعجاب کی پرچھائیاں بھی تقریباً ہر باب میں رقصاں نظر آتی ہیں کچھ مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں حیرانی کے پہاڑ زمین میں پیوست ہو گئے ہیں، اب قاری کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ انھیں تسخیر کر لے یا پھر بے گانگی اور لاتعلقی اختیار کر لے۔
ناول کی خوبی اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ شاعری اور نثر دو مختلف راستوں پر گامزن نہیں ہیں بلکہ دو سہیلیوں کی طرح گلے میں بانہیں ڈال کر سفر شروع کرتی ہیں اور اختتام تک پہنچتی ہیں۔ مصنف کی شاعری سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ تب ہی بات مکمل ہوگی۔ ملاحظہ فرمائیے۔
جانے کس نے ہوا کو تھپکی دی
وہ کسی اور، اور کو ہولی
مصرعہ ثانی میں دو مختلف باتوں اور خیال کو پیش کیا گیا ہے ایک اور شعر کے رنگ ڈھنگ سے متعارف کراتے ہیں:
چاند دریا میں خود سے ڈوبا تھا
چاندنی اس کے ساتھ بہہ دی
اب ’’بہہ دی‘‘ سے جو تخلیقیت کا رنگ سامنے آیا ہے، بے شک وہ اپنی جگہ ان دیکھا ہے اور شعری آہنگ کا ایک نیا رخ ہے۔ مصنف کو نہ صرف نثر نگاری پر ملکہ حاصل ہے بلکہ وہ اصناف سخن پر بھی عبور رکھتے ہیں اور نئے نئے الفاظ کو خوبصورتی کے ساتھ برتتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ وسیع المطالعہ شخص ہیں سوچ و بچار میں مبتلا رہتے ہیں اور پھر غور و فکر کے نتیجے میں دور کی کوڑی لاتے ہیں۔
یقینی بات ہے یہ کوڑی بھی انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بصیرت و بصارت کے چراغ روشن کرنے کے فن سے واقف ہوں۔
جب علم و آگہی اور وجدانی کیفیت قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہو تب ہی ایک خوبصورت اور معنی آفرینی کے ساتھ تحریر کا وجود عمل میں آتا ہے۔
مذکورہ ناول میں چھوٹے چھوٹے فقروں نے بھی قاری کو محظوظ کیا ہے اور لطف اندوزی کی ایک نئی راہ نکالی ہے۔ بارش کے موسم کا ذکر کرتے ہیں:
(1)۔بچنے کی راہ اوندھی کردی تھی
(2)۔زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر چھوڑ دینا کہ مبادا کوئی غلط بات نہ نکل جائے عام سی بات کو ایک نئے زاویے سے بیان کرنا ہی تو فن ہے۔
سحر و آسیب، دیو، جن، بھوت ان سب کا تذکرہ شعری قالب میں اس طرح ڈھالا ہے:
میں جب سیر پر نکلا
تو یہ راز کھلا
وہ قوی دیو کی تھیلی تھی
میں جس پر رہتا تھا
مزید یہ کہ کچھ طاقتیں ہمارے تاثرات جاننا چاہتی ہیں۔ دوسرے طاقچوں میں رکھی کچھ طاقتوں کے بارے میں مصنف موکلین کے بارے میں بھی شدھ بدھ رکھتے ہیں۔
’’میں نے کسی سے سوال نہیں پوچھا، کچھ دریافت نہیں کیا، میرے موکلین ماضی قریب تک مجھے اس بارے میں باخبر رکھتے ہیں۔
انھیں اس بات کا بھی ادراک ہے
ایک آسمان ضرور ہے میرے نصیب میں
زیر زمین ضرور کوئی بندوبست ہے
آپ کی سماعتوں کا شکریہ
(تقریب اجرا کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)