سب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ خود اپنی شخٰصیت میں نکھر جانے لگتا ہے،کیونکہ دنیا کی بہترین درس گاہ کتاب ہے۔
ایک بہترین اورکامیاب زندگی کے لیے آپ کوکچھ جاننا اور سیکھنا ہے تو اس مقصد کے لیے سب سے بڑی معاون کتاب ہے۔ میں جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو کتاب کے مطالعے سے فیض یاب ہونے لگتا ہوں،کیونکہ میں ایک کتاب دوست آدمی ہوں، مجھے کتابیں اورکتابی چہرے اچھے لگتے ہیں۔
ایسے ہی چہرہ شناس لوگوں میں سے عبدالستار عاصم بھی ہے جنھوں نے گزشتہ کئی سالوں سے ’’ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کر رکھا ہے، وہ ایک کتاب دوست آدمی ہے۔
کبھی کبھی وہ خود سے اتنا بے خبر ہو جاتا ہے کہ دوسروں کی خبر لینا بھی کوئی ضروری نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے نزدیک عقل اور کتاب کا تعلق ایسے ہی سمجھتا ہے جسے پھول اور خوشبو، جسم اور جاں، چاند اور چاندنی کا تعلق آپس میں ہوں۔
پچھلے دنوں میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے ’’ کلیات تب و تاب‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت کتاب کا تحفہ دیا جسے میں نے بڑی خوشی سے قبول کیا۔
اس کتاب کے مصنف کا نام تاب اسلم ہے، اس بے کمال لفظوں کا باکمال شاعر کے بارے میں پروفیسر محسن احسان لکھتے ہیں کہ ’’ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی جنم بھومی سے اٹھنے والی تاب اسلم کی آواز میں دونوں بڑے شعراء کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔
اردو شعراء اور منفرد لب و لہجہ رکھنے والے سخن گو بھی ان کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تاب اسلم غزل کے طویل سفر میں ایک لمحے کے لیے بھی ذات سے جدائی اختیار نہیں کرتا۔
ایسے لگتا ہے کہ اس کی غزل ایک آئینہ خانہ ہے جس میں ہر زاویے سے اس کا اپنا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے، پس منظر میں کہیں یادوں کے چراغ،کہیں بچھڑنے کی رُتیں، غم کی ردائیں،کہیں چاہتوں کی دھنک،کہیں دھواں دھواں خواب وخیال ہیں،کہیں لہوکے رنگ ہیں،کہیں ہجرکی اذیتیں توکہیں وصل کی راحتیں، اتنی بہت سی کیفیتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ عکسِ ذات سے نکل کر کائنات کو اپنے احاطہ میں لے لیتی ہیں۔
اور کائنات کے ساتھ اس کی وابستگی اسے عالمی فکرکا نمایندہ بنا دیتی ہے۔‘‘ وہ اپنی شاعری میں اپنے زخموں کی داستاں یوں سناتا ہے کہ۔
لوگ میری باتوں کو شاعری سمجھتے ہیں
میں دل کے زخموں کی داستاں سناتا ہوں
تاب اسلم نے سیالکوٹ کی زرخیز مٹی پہ جنم لیا۔ وہیں سے تعلیم حاصل کی اور وہیں زندگی کے سارے شب و روز بسرکردیے، ان کے ہاں غزل انفرادی لب ولہجہ اور جداگانہ اسلوب سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔
کون ہے جسے مل کر، مل سکا نہیں اب تک
کس کو ڈھونڈتا ہوں میں، بے شمار چہروں میں
اس ضخیم کلیا ت میں اسلم تاب کی چھ شعری کتابوں کا کلام ایک ساتھ کلیات کی شکل میں شایع کیا گیا، ان کی تصانیف میں زخمِ وفا، نقشِ آب، سرابِ جاں، تیری یاد کے سارے موسم، درد تیرے فراق کے اور محبت ایک ادھورا خواب شامل ہیں۔
اس کا انتساب انھوں نے ایسی شخصیات کے نام منسوب کیا ہے جو امن، محبت، سلامتی اورکتاب دوستی کے سفیر ہیں۔ جن میں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، اعزاز احمد آذر، محمد فاروق چوہان اور غلام حیدر شیخ جیسی قد آور شخصیات کے نام درج ہیں۔
تاب اسلم کی ہم سفر کی تلاش میں سخن واری کے گلستان میں خوشبوکی طرح ایسے لفظوں کو اپنے ذہن کی تجوری میں قیدیوں کرتا ہے۔
تری تلاش میں نکلے ہیں خوشبوؤں کی طرح
جو لفظ ذہن میں اُترے تھے جگنوؤں کی طرح
تاب اسلم کے شعری مجموعے ’’ زخمِ وفا ‘‘ جسے اس کلیات کا حصہ بنایا گیا ہے اس حوالے سے وزیر آغا کی مستند رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہ لکھتے ہیں کہ’’ زخمِ وفا کی وہ داستان جسے تاب اسلم نے شعرکے لبادے میں پیش کردیا ہے۔
چونکہ مقدمہ نگارکا کام محض یہ ہے کہ وہ اس پردے کو لحظہ بھرکے لیے اٹھا دے تو شاعر اور قاری کے درمیان موجود رہے تاکہ قاری کی آتش شوق بھڑک اُٹھے، اس لیے اپنا یہ فرض ادا کرنے کے بعد اسے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نظر نہیں آتی اور نہ وہ خود کو قاری اور شاعر کے درمیان ایک نئے پردے کے طور پر آویزاں کرنے کا متمنی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ کلیات تب و تاب میں ڈاکٹر انور سدید، عبید بازغ امر اور محبوب ظفر کے مضامین دیباچہ کی شکل میں شامل اشاعت ہیں۔ تاب اسلم ایک نمایندہ غزل گو شاعر ہیں۔
ان کی شاعری میں روایت اور جدیدیت کا ایک خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ ان کی غزلیں اپنے اندر تازگی کا ایک احساس رکھتی ہیں۔ انھیں اپنے اشعارکی قدر و قیمت کا اندازہ ہے کہ وہ انھیں ہیرے جواہرات سے کم نہیں سمجھتے۔
جس کا ہر لمحہ گزرتا ہو قیامت کی طرح
اے خدا ایسے زمانے کا مقدرکیوں بنوں
کلیات تب و تاب جسے ترتیب و تدوین قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین عبدالستار عاصم نے دیا جب کہ اس کا اہتمام سنیئرکالم نگار پاکستان ٹی وژن کے سنیئر ڈائریکٹر (ر) افتخار مجاز نے بڑی خوبصورتی سے کیا۔
آخر میں عبدالستار عاصم کی اس کلیات کے حوالے سے چند باتیں تحریرکرتا چلوں کہ ’’ قلم فاؤنڈیشن نے تب وتاب کے نام سے ان کی کلیات شایع کرنے کا بیٹرا اٹھایا، اس لیے تاب اسلم کی شاعری میں وہ تمام لوازم موجود ہیں، جو مقبول اور محبوب شاعر میں موجود ہوتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اجمل نیازی، افتخار مجاز، ملک مقبول احمد،کرنل رشید، خالد یزدانی، غلام حیدر شیخ ، صدام ساگر، ضیاالحق نقشبندی، مفتی محمد وحید قادری اور شعیب مرزا جیسی دیگر سیکڑوں علم دوست اورکتاب دوست لوگوں کی توجہ سے کتاب کلچر فروغ پا رہا ہے۔ چلیے جاتے جاتے تاب اسلم کے دو اشعار دیکھیے۔
زمین کی کوکھ سے کیا کیا شجر نکل آئے
ہوا چلی تو پرندوں کے پر نکل آئے
سخنواروں کو یہاں تاب کون پہچانے
جو بزمِ شعر میں مجھ جیسا بے ہنر بھی نہ ہو