اس کے برعکس مقامی کوئلے کے ذخائر سے فائدہ اٹھاکر کم لاگت میں مستحکم بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ یہ طریقہ توانائی کے شعبے میں ہونے والے اخراجات کو ملک کے اندر رکھنے اور مجموعی معاشی استحکام کو فروغ دینے کا ایک موثر راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔
صحرائے تھر کا شمار دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں ہوتا ہے۔ جیولوجیکل سروے کے مطابق یہاں تقریباً 175 ارب ٹن لیگنائٹ کوئلہ موجود ہے جو 9000 مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
2024 تک پاکستان کے مجموعی کوئلے کے ذخائر 186 ارب ٹن تھے، جس میں تھر کے کوئلے کا حصہ نمایاں ہے۔ اس ذخیرے کو احتیاط سے استعمال کرنے سے صدیوں تک بجلی کی ملکی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔
مقامی وسائل کے استعمال سے درآمدی کوئلہ اور ایندھن خریدنے پر خرچ ہونے والا بھاری زرمبادلہ بھی نمایاں طور پر کمی لائی جاسکتی ہے۔ 2019 سے اب تک صرف تھر بلاک II سے 27000 گیگا واٹ آور سے زائد بجلی پیدا کی جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کو تقریباً 1.3 ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کی بچت ہوئی ہے۔
مزید یہ کہ کوئلہ کی کان کنی سے نہ صرف ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے بلکہ سندھ میں انفرا اسٹرکچر کو ترقی بھی ملے گی۔ اس طرح قومی دولت بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بجائے ملک کے اندر ہی گردش میں رہے گی، جو پائیدار معاشی استحکام کی جانب ایک مستحکم قدم ثابت ہوگا۔
عالمی تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ممالک جو کوئلے کا استعمال ترک کرتے جارہے تھے، توانائی کی قلت کے باعث دوبارہ کوئلے کا استعمال کررہے ہیں۔
روس، یوکرین جنگ کے بعد پیدا ہوئے توانائی بحران میں جرمنی نے بجلی کی کمی کو پورا کرنے اور اپنے پاور گرڈز کے تحفظ کے لیے کوئلے کے استعمال میں اضافہ کیا۔ اسی طرح پولینڈ، بھارت اور چین کے بعض علاقوں میں بھی مقامی کوئلے سے بجلی کی پیداوار بڑھائی گئی تاکہ صنعتوں اور گھریلو صارفین کو لوڈشیڈنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ مثالیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ رینوایبل انرجی اور صاف ٹیکنالوجیز اہم ضرور ہیں، تاہم بحرانی حالات میں بجلی کی مستحکم فراہمی کے لیے کوئلہ اب بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان ان تجربات سے سیکھ کر اپنے طویل المدتی اہداف کو متاثر کیے بغیر مقامی ایندھن کے استعمال پر مبنی ایک مستحکم منصوبہ تشکیل دے سکتا ہے۔
جام شورو پاور کمپنی لمیٹڈ (جے پی سی ایل) کا منصوبہ اس تبدیلی کی ایک بہترین مثال ہے۔ جے پی سی ایل پروجیکٹ کو 2013 سے پہلے پیش کیا گیا تھا، ابتداء میں یہ 660 میگاواٹ کے دو یونٹس کا منصوبہ تھا، جس میں بجلی کی پیداوار کے لیے 80 فیصد درآمدی کوئلہ اور 20 فیصد مقامی کوئلہ استعمال کیا جانا تھا۔
تاہم اب کے۔الیکٹرک ان میں سے ایک یونٹ کو 100 فیصد مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، جس کا مقصد کراچی کو قابل استعداد بجلی فراہم کرتے ہوئے حکومت پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔
یہ منصوبہ پاکستان میں توانائی کی قابل استعداد دستیابی اور تحفظ کے لیے بھی اہم ہے۔ منصوبے سے دو ارب ڈالرز سے زائد کے معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ مقامی کوئلے کے استعمال سے توانائی کے اخراجات میں کمی آئے گی، توانائی کا تحفظ ہوگا اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کی حکومتی حکمت عملی سے مطابقت پیدا ہوگی۔
مزید برآں اس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور کوئلے کی کان کنی والے علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر تھرپارکر، جہاں کوئلے کے وسیع ذخائر اب بھی بڑی حد تک استعمال نہیں ہو پائے ہیں۔
تھر کے لیگنائٹ کوئلے پر منتقلی سے بجلی کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس وقت درآمدی کوئلے سے 20 روپے فی یونٹ پاور پروڈکشن ہورہی ہے، جو مقامی ایندھن کے استعمال سے کم ہو کر 14روپے فی یونٹ پر آسکتی ہے۔
اس سے ایندھن کی فراہمی مستحکم اور قابل بھروسہ ہوگی اور عالمی منڈی کے مسائل سے جڑی رکاوٹوں میں بھی کمی آئے گی۔ یہ ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے، جس سے مقامی کوئلے کو پاکستان کے قومی گرڈ سے کامیابی کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔
مقامی کوئلے کے استعمال سے معاشی فوائد واضح ہیں اور پاکستانی ماہرین مختلف سیمینارز میں بارہا یہ بات باور کراچکے ہیں کہ اگر درآمدی کوئلے کی جگہ مقامی کوئلہ استعمال کیا جائے تو اربوں ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے، بجلی کے نرخ کم کیے جاسکتے ہیں اور معیشت کو عالمی کوئلہ و شپنگ مارکیٹس کے اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر تھر کے کوئلے سے اس وقت 2640 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جسے 3000 میگاواٹ سے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ تھر بلاک 2 میں کان کنی کی صلاحیت 7.6 ملین ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے اور اسے 11.2 ملین ٹن سالانہ تک لے جایا جاسکتا ہے۔
ان بچتوں اور توسیعات کے ذریعے بجلی گھروں کی بہتری، روزگار کے مواقعے اور کان کنی کے علاقوں کے اطراف ترقی کے لیے وسائل مہیا کیے جاسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ تھر سے کوئلہ حاصل کرنے کی صورت میں ترسیل کے اخراجات بھی کم ہوں گے، جو کراچی کی بندرگاہوں کے ذریعے درآمدی کوئلے کی ترسیل کے مقابلے میں کہیں کم ہوں گے۔
ایک ایسی معیشت کے لیے جو بڑھتے ہوئے قرض اور کرنسی کی قدر میں کمی کے دباؤ کا سامنا کررہی ہے، یہ بچت بجلی کے شعبے اور وسیع تر قومی مالیات کو مستحکم بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔
کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے وسیع تر معاشی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ قابل استعداد اور مستحکم بجلی کی فراہمی صنعتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا اور کاروباری ماحول کو مزید مسابقتی بنایا جاسکے گا۔
زیادہ ٹیرف فیکٹریوں کو بند کرنے یا پیداوار کم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، اور گھریلو صارفین کو ہر ماہ بھاری بلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقامی کوئلے کی جانب منتقلی ایک ایسا عملی حل ہے جس سے اس بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
جب بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی تو صنعتیں دوبارہ پھلنا پھولنا شروع ہوجائیں گی، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور معاشی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگے گا۔