گیارہ سالہ سالہ راقب حسین کی معصوم آنکھوں میں زندگی کے ہزاروں خواب جھلملاتے تھے۔ جولائی 2024 کی ایک صبح، وہ ان خوابوں کو لیے سڑک کنارے کھڑا تھا، کہ اچانک ایک پولیس اہلکار کی گولی اس کے سر کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ وہیں زمین پر راقب کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا، اور بنگلہ دیش کی تاریخ کا وہ باب شروع ہوا جس میں ایک آمرانہ دور کا خاتمہ لکھ دیا گیا۔
”دی گارڈین“ کے مطابق راقب حسین، ان 1400 سے زائد افراد میں شامل تھا جو بنگلہ دیش کے ”جولائی انقلاب“ میں مارے گئے۔ جب لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے تو ان کے نعروں میں انصاف، جمہوریت اور آزادی کی بازگشت سنائی دی۔ لیکن اس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے عوام کی آواز کو بندوق کی گرج سے دبانے کی کوشش کی۔ پولیس کو ”گولی مارنے“ کے احکامات دیے گئے۔ سڑکیں لاشوں سے بھر گئیں، مائیں بیٹے ڈھونڈتی رہ گئیں، اور باپ کفن خریدتے پائے گئے۔

لیکن تاریخ کی رفتار کو کوئی گولی نہیں روک سکتی۔ 5 اگست 2024 کو جب مظاہرین حسینہ کی رہائش گاہ کی طرف بڑھے، فوج نے ان پر فائر کرنے سے انکار کردیا، اور وہ ایک ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہوگئیں۔ یوں ان کے اقتدار کا خاتمہ تو ہوا، لیکن ان کے جرائم کی گونج باقی رہی۔
اب، شیخ حسینہ پر ”انسانیت کے خلاف جرائم“ کا مقدمہ 3 اگست 2025 سے شروع ہو چکا ہے۔ ان پر قتل، تشدد، اغوا اور ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ وہ خود عدالت میں موجود نہیں ہوں گی کیونکہ وہ بھارت میں پناہ گزین ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کی کئی بار کی درخواستوں کے باوجود بھارت نے انہیں واپس نہیں بھیجا۔
راقب کے والد ابو الخیر، آج بھی اپنے بیٹے کی قبر کے پاس بیٹھ کر صرف ایک سوال کرتے ہیں: ’کیا وہ عورت کبھی میرے سامنے کھڑی ہوگی؟ کیا وہ ماں بن کر کبھی سوچے گی کہ اس نے ایک اور ماں سے اس کا بیٹا چھین لیا؟‘
ان کا درد اب مایوسی میں بدل چکا ہے۔ انہیں یقین نہیں کہ حسینہ کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا کو سچ جاننا چاہیے۔ وہ مجرم ہے۔ یہ سب جانتے ہیں۔‘
انقلابی حکومت کے سربراہ، نوبیل انعام یافتہ محمد یونس، انصاف، شفافیت اور جمہوریت کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے، مگر ایک سال گزرنے کے بعد عوام میں بےچینی بڑھ رہی ہے۔ اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔

شیخ حسینہ کا بنایا ہوا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل، اب ان ہی کے خلاف کھڑا ہے۔ تین ججز کے سامنے، سابق پولیس چیف چودھری مامون جیسے کئی اہم گواہ ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کی جائے گی تاکہ دنیا خود دیکھے کہ بنگلہ دیش کا انصاف کتنا مضبوط ہے۔
اگر شیخ حسینہ مجرم قرار پائیں تو اُنہیں سزائے موت دیے جانے کا امکان ہے، اسی لیے بہت کم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ رضاکارانہ طور پر واپس آئیں گی۔ انہوں نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے، انہوں نے خود کو بےگناہ قرار دیا ہے۔ اُن کے خلاف مقدمہ ان کی غیر موجودگی میں چلایا جا رہا ہے اور ان کے لیے ایک سرکاری وکیل مقرر کیا گیا ہے۔
راقب کے والد نے اس بات پر غصے کا اظہار کیا کہ حسینہ عدالت میں پیش نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ’میں چاہتا ہوں کہ حسینہ کا سامنا عدالت میں خود کروں، وہ ان خاندانوں کے سامنے آئے اور اپنے کیے کا جواب دے۔ لیکن بھارت اُسے واپس نہیں کرے گا، یہ سب جانتے ہیں۔‘
تاہم، مخالفین اسے ”سیاسی انتقام“ قرار دے رہے ہیں۔ حسینہ کی جماعت، عوامی لیگ، پر آئندہ انتخابات کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔
حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک میں پہلی بار انتخابات فروری میں ہونے جا رہے ہیں، اس تناظر میں ابولخیِر کو خدشہ ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی رنگ اختیار کر جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سب نے دیکھا ہے ماضی میں ایسے مقدمات اکثر سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ ان مقدمات کو برسوں تک گھسیٹا جاتا ہے تاکہ کچھ لوگوں کی سیاسی خواہشات پوری ہو سکیں۔‘

تاہم، وہ پھر بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ مقدمہ ضرور چلنا چاہیے، کم از کم سچ کو دستاویزی شکل دینے کے لیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ جاننے کے لیے اس کی عدالت میں موجودگی کی ضرورت نہیں کہ اس نے کیا کیا۔ حکم اسی نے دیا تھا، سب جانتے ہیں۔ دنیا کو بھی یہ سننا چاہیے۔‘
بنگلہ دیش اب ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف وہ مظلوم ماں باپ ہیں جن کے ہاتھ میں بچوں کی تصاویر ہیں، دوسری طرف وہ سیاستدان جو ماضی کو دفن کرکے مستقبل کے دعوے کر رہے ہیں۔
مگر شاید سب سے گہری گواہی وہ خاموش قبر دے رہی ہے جہاں راقب حسین سو رہا ہے۔ ایک بچے کی قبر، جس کا لہو اب انصاف کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔