کینال منصوبہ؛ وفاقی حکومت کی خاموشی اور پیپلز پارٹی کے تحفظات، کیا صدر زرداری منظوری دے چکے؟

0 minutes, 0 seconds Read

آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں سیاسی رہنماؤں نے کینال منصوبے پر جاری اختلافات پر بحث کی۔ بلال اظہر کیانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے بات چیت کی جائے گی اور معاملہ اتفاق رائے سے حل ہوگا، شرمیلا فاروق نے سی سی آئی کے اجلاس نہ بلانے پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اب یہ مسئلہ زندگی اور موت کا بن چکا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے سابق صدر آصف علی زرداری کو اس معاملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور مطالبہ کیا کہ پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔

آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر سے کینالز کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے بلال اظہر کیانی وزیر مملکت برائے ریلوے نے کہا کہ آئندہ دنوں میں پیپلز پارٹی اپنی قیادت میں جو بھی ٹیم تشکیل دیتی ہے اس کے ساتھ بیٹھیں گے اور اس ایشو کو سنجیدہ طریقے سے بات چیت کریں گے اورجو تکنیکی معاونت درکار ہوئی اس پر بھی رجوع کریں گے۔

انھوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ لیکن ایکنیک منظوری ویسے بھی درکار ہے۔ ابھی تک اس کو ایکنک نے منظور نہیں کیا۔ جب اس کی مخالفت ہوئی تو ایکنک نے معاملہ روک لیا تھا۔ ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی اس کا حوالہ دیا جسے چند روز بلاول بھٹو نے بھی تسلیم کیا۔

وزیر مملکت برائے ریلوے نے کہا کہ ایکنک جو ایک کونسل ہے حکومت کی اس نے بھی اس کو روک دیا تھا جو بھی آگے فیصلہ ہوگا وہ مل بیٹھ کر ہوگا، اسحاق ڈار صاحب نے واضح کہا کہ جو بھی سندھ کا شیئر آف واٹر ہے اس میں سے ایک قطرہ بھی کمپروفائز نہیں ہوگا جو بھی اس منصوبے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا وہ مل بیٹھ کر اتفاق رائے کے ساتھ طے کیا جائے گا۔ ایکنک میں سب کی نمائندگی ہوتی ہے اس میں سارے صوبے شامل ہیں۔

پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کینال کا جو ایشو ہے وہ ایک ٹیکنکل چیز ہے وہ زیادہ واضح ہو چکا ہے، ہم اس میں سب سے بڑا ذمے دار صدر آصف علی زرداری کو سمجھتے ہیں کیوں کہ جب ارسا ایکٹ آیا تھا دستخط ہونے کے لیے تو اس وقت ڈاکٹر عارف علوی نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔

حلیم عادل شیخ نے گفتگو میں کہا کہ سابق صدر عارف علوی نے نے کہا کہ میں اس کو ریجیکٹ کرتا ہوں کیوں کہ مجھے اپنی دھرتی کراچی اور صوبہ سندھ میں واپس جانا ہے، میں کس منہ سے جاؤں گا جو آج ہو رہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ نورا کشتی ہے اور یہ کیا دھرا ہی ان دونوں کا ہے، جب ضمیر گھمرو صاحب کورٹ میں گئے تو ہم سمجھتے ہیں اس پر بھی کارروائی ڈالی گئی۔

رہنما پیپلز پارٹی شرمیلا فاروق نے کہا کہ بارہا اس بات کو دوہرا چکے ہیں صدر زرداری صاحب اس کے سربراہ ہیں، یہ منظوری متععلقہ فورم پر ہونا چاہیے یا نہیں، اس کا فورم ایکنک ہے جہاں شاید یہ منظور نہیں ہوا لیکن اس کو ایجنڈے میں ڈالا گیا، سندھ میں شدید احتجاج ہوا تو اس کو ایجنڈے سے نکالا گیا۔

شرمیلا فاروق نے کہا کہ صدر زرداری نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں یہ کہہ دیا کہ آپ اس پر نظر ثانی کریں اس پر مزید گفتگو کرنا یا صدر زرداری کو بلا وجہ معاملے کے اندر لے کر آنا یہ کچھ ایسے لوگوں کی سیاست ہے جن کی سیاست کسی اور طریقے سے چمک نہیں سکتی۔

انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ کنالز نہیں بن سکتے کیوں کہ ایک منصوبہ متنازع ہے اور اس پر ایشوز ہیں تو اس کے اوپر کونسل کامن انٹرسٹ میں جانا چاہیے، اب مجے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کاؤنسل کی چودہ مارچ سے میٹنگ کیوں نہیں بلائی جا رہی؟ ہم تو اس کو پچھلے اگست سے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، بارہا وزیراعظم کو خطوط لکھے گئے، سندھ اسمبلی میں اس کے خلاف قرارداد پاس کر دی، قومی اسمبلی پر بھی ہم نے اس پر بات کر لی۔ یہ انشورنس اگر اسحاق ڈار صاحب سے ہاؤس میں مل جاتی تو ہم مطمئن ہو جاتے کہ اگلے ہفتے اس تاریخ کو بیٹھیں گے۔

بلال اظہر کیانی آج بھی یہی بات ہو رہئی ہے چاہیے کوئی ایکنک کا فورم ہو یا سی سی آئی کا اس کی میٹنگ بلانی چاہیے، لیکن پہلے ہمیں ان کے ساتھ بیٹھ کی ٹیکنیکل ڈسکشن کی ضروت ہئے یا کوئی سیاسی ڈسکشن کرنے کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہو جائے اس کے بعد ایکنک کا بھی فورم موجود ہے،

پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروق نے کہا کہ جب ہم انھیں بہت پہلے خطوط لکھ رہے تھے تو گفتگو تو اس وقت ہونی چاہیے تھی، جب سندھ سراپا احتجاج تھا، اس وقت تو معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا کہ یہ ہماری زندگی اور موت کا معاملہ بن گیا ہے، اب گفتگو کا وقت نکل چکا ہے اب اس کو فورم پر لے کر جائیں، جہاں پر ٹیکنکل بنیاد پراس مقدمے کو ہم لڑ سکیں۔

شرمیلا فاروقی نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ کیوں نہیں بلائی جا رہی اس کا جواب میری جماعت کو نہیں ملا۔ ہمارے ہر ممبر نے بھی یہ مطالبہ کیا کہ اس کو سی سی آئی میں لے کر جائیں ایسی کیا قباحت ہے یا ہم سندھ اور پنجاب کی سرحد پر بیٹھ جائیں کیا کریں۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی دھرنا دیا تھا کالا باغ ڈیم نہیں بنا تھا جو ایک تاریخی معاملہ ہے، گیند اب حکومت کے کورٹ میں ہے یہ کیا چاہتے ہیں۔ بار بار صدر زرداری کو اس میں لے آتے ہیں۔

حلیم عادل شیخ نے پروگرام میں گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پیپلز پارٹی کی بات نہیں مان رہے تو وفاقی حکومت سے نکل جائیں اگر زندگی موت کا معاملہ تو ان کو اسپورٹ ختم کر دینی چاہیے۔

وزیر مملکت بلال اظہر کیانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تحفظات دور ہونے چاہیے، بات تو کہیں بھی ہوسکتی ہے، بات تو یہ ہے مسئلہ حل کرنا ہے، کسی بھی فورم پر بات چیت ہوگی اس کا جو بھی نتیجہ ہوگا، اتفاق رائے سے ہوگا۔ ہماری جماعت میں سینئر سطح پر دوسری جماعتوں سے رابطے میں ہیں کہ جلد اجلاس ہو، آئندہ دنوں میں امید ہے کہ کوئی نتیجہ نظر آئے گا۔

شرمیلا فاروق نے کہا کہ جب قومی اسمبلی میں بات کرنی تھی انھوں نے شور شرابا کہ اور ہنگامہ کیا اور بائیکاٹ پر چلے گئے۔ ہم نہیں چاہتے کہ معاملات اتنے خراب ہو جائیں کہ پھر پیچھے مڑنے کا راستہ نہ رہے۔

Similar Posts