ریلویز کی اراضی پر 40 ارب روپے سے زائد کے فراڈ کا انکشاف، نیب کی تحقیقات شروع

پاکستان کے چاروں صوبوں میں پاکستان ریلویز کی سیکڑوں ایکڑ قیمتی اراضی پر غیر قانونی قبضے اور لیز پر دینے کی مد میں ہونے والے 40 ارب روپے سے زائد مالیت کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔

فراڈ میں ملوث ریلوے افسران اور نجی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع تو ہوئیں مگر مکمل نہ ہو سکیں جس پر فراڈ کے یہ کیس نیب کے حوالے کر دیے گئے۔

نیب نے وزارت ریلوے کی طرف سے موصول ہونے والے فراڈ کے ریکارڈ پر تحقیقات شروع کر دیں۔ نیب کو کیس وزیر ریلوے حنیف عباسی کی منظوری ملنے کے بعد بھجوائے گئے۔

قومی احتساب بیورو ذرائع کے مطابق پاکستان ریلویز کی طرف سے باقاعدہ فراڈ کی تحقیقات کے لیے درخواست اور ریکارڈ ملنے کے بعد قومی احتساب بیورو نے تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے نیب کی ان فراڈ کی تحقیقات میں معاونت اور مشاورت کے لیے ہائی پروفائل کمیٹی بھی بنا دی ہے جو نیب کو اس انکوائری کے سلسلے میں ضروری دستاویزات اور معلومات فراہم کرے گی اور نیب کو قانونی اور تکنیکی مدد بھی فراہم کرے گی۔

نیب کو پاکستان ریلویز کی جانب سے جو کیس بھجوانے گئے ہیں ان میں رائل پام کنٹری کلب کو لیز پر دینے اور کرائے کے دو ارب 16 کروڑ 20 لاکھ سے زائد کے بقایاجات کی عدم وصولی، مردان ریلوے اسٹیشن کے قریب دو ایکڑ اراضی پر گودام کی لیز اور دفاتر پر قبضے کی مد میں 25 کروڑ روپے سے زائد کا فراڈ، کراچی گھوٹ میں 42 ایکڑ اراضی کی مد میں 20 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد کا فراڈ شامل ہے۔

اسکے علاوہ، چمن اور کوئٹہ میں پی ٹی سی ایل کو لیز پر اراضی دینے اور ریلوے کی کمرشل اراضی پر قبضے کی مد میں 13 ارب دس روپے سے زائد رقم کی انکوائری جبکہ لاہور میں 18 ایکڑ اراضی ٹرسٹ اسپتال شالیمار کو دینے اور لیز کی مد میں 23 ارب 15 کروڑ روپے سے زائد کی رقم کی ادائیگی کا معاملہ اور پاک بزنس ٹرین آؤٹ سورسنگ کی مد میں لینے والی فور برادرز کمپنی کا دو ارب 75کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا کیس شامل ہے۔

ان کیسز پر نیب نے باقاعدہ تحقیقات شروع کر دی ہیں اور وزارت ریلوے کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی نے نیب کی معاونت بھی شروع کر دی ہے۔ کمیٹی میں ایم حفیظ اللہ، جنرل منیجر انفرا اسٹرکچر (کمیٹی کے فوکل پرسن/سربراہ)، شاہد عباس ملک (ڈائریکٹر جنرل، پراپرٹی اینڈ لینڈ)، طارق انور سپرا چیف کمرشل منیجر اور سلمان کاظمی (قانونی مشیر) شامل ہیں۔

ریلوے ذرائع کے مطابق فراڈ اور ریلوے اراضی پر قبضے کے یہ کیس برسوں سے التوا کا شکار تھے۔ رواں ماہ ہونے والی ریلوے کی اہم میٹنگ میں جب اس حوالے سے وزیر ریلوے حنیف عباسی کو تفصیلی آگاہ کیا گیا تو انہوں نے نیب کو یہ کیس بھجوانے کی باقاعدہ منظوری دی اور صاف شفاف انداز میں ان کیسز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا حکم دیا کیونکہ ان فراڈ اور اراضی پر غیر قانونی قبضے کی مالیت اربوں روپے کی ہے، اسی وجہ سے یہ کیس نیب کو بھجوائے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں جب وزیر ریلوے حنیف عباسی سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلویز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، مسافروں کو زیادہ سے زیادہ سفری سہولیات فراہم کرنی ہیں اور ریلوے سے کرپشن کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔ اس معاملے پر کسی بھی آفیسر کو کوئی چھوٹ نہیں۔

انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ جو کرے گا وہ بھرے گا بھی، کرپشن پر کوئی سمجھوتا نہیں، چاہے کوئی بھی ہو۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ چیئرمین نیب سے اس سلسلے میں بات ہو چکی ہے اور انہی کے کہنے پر ریلوے کے 4 اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی ہے تاکہ ان کیسز کی چھان بین میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

Similar Posts