یہ شہر اپنے آپ میں ایک سلطنت ہے۔ اس کا ورثہ اس کی تاریخ ختم ہی نہیں ہوتی۔ ہر سال کہیں کچھ نیا مل جاتا ہے اور تاریخ داں سر جوڑ لیتے ہیں جیسے لاہور نا ہوا عمرو عیار کی زنبیل ہو گیا جس میں سب کچھ مل جاتا ہے۔
یہ بات حقیقت ہے بھئی۔ یہاں سب کچھ پایا جاتا ہے۔
لاہور کو باغوں، کالجوں، عجائب گھروں، فلمی ستاروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کا کوئی ایک حوالہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کئی جہتیں رکھتا ہے اور اِس کی ہر جہت اپنی مثال آپ ہے۔ آج ہم اس کی ایک نئی جہت کو کھوجیں گے۔
لاہور شہر میں اگرچہ کئی پرانے اور نئے تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں سے چند ادارے بہت تاریخی ہیں۔ لیکن ان اداروں کے اندر بھی کچھ نا کچھ ایسا ہے جو انہیں دیگر سے منفرد بناتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں یا جگہیں ہیں جو ان اداروں کی خصوصیت کہلائی جا سکتی ہیں اور جو انہیں ممتاز بناتی ہیں۔
آئیں میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ لاہور کے قدیم اور تاریخی تعلیمی اداروں میں کیا کیا چھپا ہے۔
چھجو کا چوبارہ، میو اسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے بلاکس؛
سن 1860 میں بنائی گئی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی جو اس سے پہلے میڈیکل کالج تھا، اِس خطے کا سب سے پہلا طبی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسے انگریز راج میں بطور لاہور میڈیکل سکول تعمیر کیا گیا تھا جسے دسمبر 1911 میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ادارے کا خیال تا 1857 میں ہی پیش کر دیا گیا تھا لیکن جنگ آزادی کی وجہ سے معاملہ لٹکا ہی رہا اور پھر 1960 میں یہ قائم ہوا جس کے پہلے پرنسپل کلکتہ کے ڈاکٹر آئی بی شریوان بنے۔
1860ء میں یہ ادارہ آرٹلری بیرکس کے ساتھ ملحق تھا جس کی عمارت کو 1864ء میں انار کلی سے ملحقہ ایک ڈسپنسری کے پاس منتقل کردیا گیا۔
1871ء میں انارکلی ڈسپنسری کو ختم کرکے اس کی جگہ میو اسپتال قائم کیا گیا جس کا نام اُس وقت کے برطانوی راج کے سربراہ ’’ایرل آف میو‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔ یہ عمارت انجنیئر رائے بہادر کنیا لال نے تعمیر کی تھی۔ اسی سال اس کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے کردیا گیا۔
نومبر 1960 میں ادارے کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر پاکستان پوسٹ نے دو یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیے۔
میری نظر میں اس ادارے کی دو خاصیتیں ہیں۔ ایک تو یہاں ادارے سے منسلک اسپتال میں چھجو کے چوبارے جیسی اہم تاریخی جگہ چھپی ہوئی ہے جو پہلی بار کوئی بھی آسانی سے نہیں ڈھونڈ سکتا۔
یہ ایمرجنسی لیب کے سامنے شمس شہاب الدین صحت گاہ کے بیچ میں چھپا ہوا ہے اور یہ وارڈ اب خواتین کے لیے مخصوص ہے۔
چھجو بھاٹیہ، شاہ جہاں کے دور کا ایک مشہور تاجر تھا جو اپنا سب کچھ تیاگ کر فقیر بن گیا۔ اس نے اپنی عبادت کے لیے یہ چوبارہ تعمیر کروایا جس کے بارے مشہور ہے کہ یہ سیڑھیوں کے بغیر تھا اور چھجو لکڑی کی سیڑھی یہاں تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اوپر پہنچ کے وہ سیڑھی کھینچ لیتا تاکہ کوئی اس کی عبادت میں مخل نا ہو۔ مشہور ادیب سید محمد لطیف کے مطابق یہاں مختلف سمادھیوں، مندروں اور دھرم شالاؤں کا ایک کمپلیکس تھا جو نجانے کہاں گیا۔ چھجو بھگت بھی ایک دن اپنے چوبارے سے غائب ہو گیا۔ وہ کہاں گیا؟ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔
آج اس چوبارے کے نام پر فرشی صحن کے بیچ ایک کمرا باقی ہے جس کی چھت کنول کے پھول سے مشابہت رکھتی ہے۔ اندر نقاشی کا کام اگرچہ دھندلا گیا ہے لیکن شیشے کا نفیس کام آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں یہ کام سونے کے پانی سے کیا گیا ہے۔ اس کمرے کو بطور مسجد استعمال کیا جا رہا ہے۔
ادارے کی دوسری خصوصیت اس کے وہ تاریخی بلاکس ہیں جو مختلف ریاستوں کی امداد سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان میں بہاولپور بلاک، پٹیالہ بلاک، فرید کوٹ بلاک اور کپورتھلہ بلاک (اب مقبول احمد بلاک) شامل ہیں۔ یہ بلاکس نواب آف بہاول پور، فرید کوٹ، پٹیالہ اور کپور تھلہ کے نوابوں کی کثیر مالی امداد سے تعمیر ہوئے تھے۔
پٹیالہ بلاک ان میں سب سے حسین ہے جس کی لمبی راہ داریاں، کشادہ ہال، پرانا زینہ، یادگاری تختیاں اور بڑی کھڑکیاں انسان کو ماضی میں لے جاتی ہیں۔ یہاں زمزمہ توپ کا چھوٹا سا ماڈل اور ایک عجائب گھر بھی موجود ہے۔ ادارے کے عجائب گھر میں ابتدا سے لے کے اب تک طلباء (زیادہ تر پرانے جو اب ہندوستان میں ہیں) کے استعمال میں رہنے والی کئی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ یہ تاریخی بلاک 1860 کا بنا ہوا ہے۔
کپورتھلہ یا مقبول احمد بلاک یہاں کا سب سے زیادہ مشہور حصہ ہے جو اس دور میں (1909) ادارے کے پرنسپل، کرنل ڈاکٹر ڈیوڈ والٹر سدرلینڈ کی زیرِنگرانی تعمیر ہوا تھا جن میں ان کا اپنا ڈونیشن بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر سدرلینڈ، آخری سکھ شہزادی بمبا کے شوہر تھے جو مہاراجا رنجیت سنگھ کی پوتی اور دلیپ سنگھ کی بیٹی تھیں۔ وہ خود بھی ایک ڈاکٹر تھیں۔ یہ وہی بلاک ہے جس کے سامنے ادارے کے تمام گروپ فوٹوز بنائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ بلاک کی پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کر دی گئی ہے جو بہت سے کیمکولینز کے مطابق ان کی یادوں کا قتل ہے۔
اس حوالے سے ایک طالبہ حمد نواز اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتی ہیں؛
’’یہ بہت اہم تھی، ڈٰپارٹمنٹ نہیں بلکہ ہماری فارما وال۔ ہم سب اس کے کونے کونے میں روئے ہیں۔ ہم سب اپنے لیکچرز کے بعد جھنڈ میں اس کی طرف دوڑ پڑتے تھے۔ ٹھنڈی ہوائیں، ہلکے دن۔ ہم نے اسے جیا ہے، اس پر جیا ہے۔ پس منظر میں اِس دیوار کے ساتھ ایک اچھی تصویر کے بغیر کوئی حقیقی کیمکولین کبھی بھی فارغ التحصیل نہیں ہوا ہوگا۔ یہ ہمارا تاریخی نشان تھا۔ یہ وہ پہلی چیز تھی جو کسی نئے آنے والے کو دیکھنے کو ملتی تھی اور آخری چیز جسے وہ بھولنا چاہے گا۔‘‘
گھنٹہ گھر ٹاور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی
جی سی یو، جامعہ پنجاب کے بعد لاہور کا سب سے مشہور ادارہ ہے جو 1864 میں انگریز سرکار کی طرف سے بطور گورنمنٹ کالج لاہور قائم کیا گیا تھا۔ شروع میں یہ ادارہ ڈوگرہ وزیراعظم، راجا دھیان سنگھ کی حویلی میں قائم کیا گیا تھا جس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔
کیمبرج، آکسفورڈ اور ڈبلن یونیورسٹی کے اساتذہ یہاں پڑھایا کرتے تھے۔ 1871 میں انارکلی کے ایک بڑے بنگلے اور پھر ڈاکٹر رحیم خان (پروفیسر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) کی کوٹھی سے ہوتا ہوا یہ کالج 1876 میں اپنی موجودہ جگہ، مال روڈ پر آ گیا۔ اس کا ایک کیمپس کالا شاہ کاکو میں بھی ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلیب ویلہیلم لیٹنر تھے جنہوں نے جامعہ پنجاب کی بھی بنیاد رکھی سو یہ کالج لگ بھگ ایک سو پندرہ سال تک پنجاب یونیورسٹی سے منسلک رہا۔ 1997 میں اسے الگ ڈگری کے حصول کا پروانہ ملا اور 2002 میں یہ یونیورسٹی بن گیا۔ کالج کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے نام میں کالج کا لفظ برقرار رکھا گیا۔
یوں تو اس ادارے کی ایک ایک چیز بہت منفرد ہے لیکن وہ خاص چیز جو اس عمارت کو منفرد بناتی ہے اس کا گھنٹہ گھر ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی اصل پہچان ہی اس کا گھنٹہ گھر ٹاور ہے جس کے سامنے مشہور اوول گراؤنڈ ہے۔ 176 فیٹ بلند اس ٹاور کو عمارت سمیت ڈبلیو پرڈون نے ڈیزائن اور کنہیا لال کی زیرنگرانی تعمیر کیا گیا تھا جس میں نوآبادیاتی دور کے طرزِتعمیر کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ چار منزلہ اس ٹاور کی بنیادی دو منزلیں چوکور جب کہ اوپری حصہ ہشت پہلو اور پھر تکونی گنبد پر مشتمل ہے جس کے ہر جانب محرابی کھڑکیاں ہیں۔
وسیع برآمدے، اونچی چھتیں، خوب صورت دالان، محرابی کھڑکیاں و دروازے اور ایک گھنٹہ گھر، اس ادارے میں پڑھنے کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بندہ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔
ٹائم کیپسول، ایف سی کالج یونیورسٹی
آپ لوگوں نے ٹائم ٹریول کا نام تو سنا ہوگا، لیکن فارمن کرسچیئن کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے ادارے میں ٹائم کیپسول بنایا ہے جو ایک منفرد چیز ہے۔ ایک سو اکاون برس پرانا یہ تاریخی ادارہ 1864 میں ڈاکٹر چارلس ڈبلیو فارمن نے قائم کیا تھا جس کا پرانا نام ’’لاہور مشن کالج‘‘ تھا۔ 1894 میں اس کا نام بدل کے چارلس فارمن کے نام پر رکھ دیا گیا۔
سابق طلباء اور فیکلٹی کے ذریعہ 6 مارچ 2015 کو دفن کیا گیا یہ ٹائم کیپسول، ٹھیک پچاس سال بعد 2065 میں کھولا جائے گا جب اس کالج کو دو سو سال پورے ہوچکے ہوں گے۔
اکیڈمک انیشی ایٹو کے سینئر مینیجر سحر جان نے کہا، ’’یہ خیال ایف سی کالج کو اس طرح سے امر کرنا تھا جس طرح سے ہم اسے جانتے ہیں۔‘‘
شیشے کے ایک کیپسول میں مختلف اشیاء جیسے جامعہ کی حالیہ اشاعتیں، مگ، ایک گارڈ کی ٹوپی، کیمپس کی تصاویر اور سابق طلباء کے نوٹس کو سیل کرکے ایک گڑھے میں دبا دیا گیا ہے۔ اس کے اوپر سنگ مرمر کی ایک یادگاری تختی اور ڈائل بنایا گیا ہے۔
اس موقع پر جامعہ کے پرانے طلباء بھی موجود تھے جن میں چوہدری احمد سعید، ڈاکٹر طیب اور تجمل حسین جعفری شامل ہیں۔
ٹائم کیپسول اب سے 50 سال بعد (2065ْْ /03 /06) کھولا جائے گا تاکہ فارمینیٹس کی آنے والی نسلوں کو ایف سی کالج کی تاریخ کی ایک جھلک مل سکے۔
یہ واقعی ایک منفرد چیز ہے۔
ڈیوڈ اور دا کِس، نیشنل کالج آف آرٹس
نیشنل کالج آف آرٹس عرف این سی اے فنونِ لطیفہ کے حوالے سے لاہور اور پنجاب کا منفرد اور بہترین ادارہ ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم اورجنوبی ایشیا کا دوسرا قدیم آرٹ کالج ہے جس کی بنیاد 1876 میں بطور ’’میو سکول آف انڈسٹریل آرٹس‘‘ رکھی گئی تھی۔ تاج برطانیہ کے بنائے گئے اس ادارے کا نام قتل ہونے والے وائسرائے ہند، لارڈ میو کے نام پر رکھا گیا تھا۔
جان لاک ووڈ کپلنگ (روڈیارڈ کپلنگ کے والد) ادارے کے پہلے پرنسپل بنے جنہیں لاہور میوزیم کا پہلا کیوریٹر بھی مقرر کیا گیا جو اسی سال ملحقہ عمارت میں کھولا گیا۔ 1958 میں، اسکول کا نام بدل کر نیشنل کالج آف آرٹس رکھ دیا گیا۔
این سی اے کے کپلنگ بلاک کا سنگ بنیاد پرنس البرٹ وکٹر نے 1880 میں رکھا جو مغلیہ طرزتعمیر سے متاثر تھا۔ یہ خان بہادر سر گنگا رام کی زیرِنگرانی تعمیر ہوا تھا۔
مرکزی دروازے کے سامنے واقع فوارے کو سردار بہادر بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کیا تھا۔ کپلنگ نے اپنے دستکاری اور مجسمہ سازی کے ہُنر کا استعمال ایک نسبتاً سادہ لیکن خوب صورت ڈھانچا بنانے کے لیے کیا۔ دیواروں کی اینٹوں کی خوب صورت چنائی، چھت پر سرخ ریتلے پتھر کے بیرونی کارنیس پر ختم ہوتی ہے جو مؤرخ محمد لطیف کے مطابق دہلی سے حاصل کیا گیا تھا۔
ادارے کا ایک ایک کیمپس راولپنڈی اور گلگت میں بھی ہے۔
این سی اے میں ایسا کیا ہے جو دوسرے اداروں میں نہیں؟
بطور فنونِ لطیفہ کے ادارے یہاں بہت کچھ منفرد ہے لیکن ایک چیز جو مجھے کسی اور ادارے میں نہیں ملی (اور نا مل سکتی ہے) وہ ہے یہاں کے اسکلپچرز یعنی مجسمے۔
مال روڈ پر عجائب گھر کے ساتھ واقع اس ادارے کا کیمپس خود بھی کسی میوزیم سے کم نہیں ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی آپ کو مختلف مُجسمے، تصاویر، ماڈلز اور سکلپچرز نظر آئیں گے جو منفرد اور جدید آرٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہاں شروع میں ایک گوتم بُدھا کا مجسمہ ملتا ہے جو گندھارا اسکلپچر کی ایک نقل ہے جسے یہاں کے ایک طالب علم نے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ادارے کے مرکزی چوک میں ڈیوڈ کا مجسمہ بھی نصب ہے جسے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک استاد جمیل بلوچ صاحب نے بنایا تھا۔ ڈیوڈ، دراصل مشہور اطالوی پینٹر اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو کا ایک کلاسیک شاہکار ہے جس کی نقل این سی میں موجود ہے۔
جمیل بلوچ صاحب کا ہی ایک اور مجسمہ ’’دا کِس‘‘ نام سے ہیجو فوارے والے چوک میں نصب ہے۔
ایک مجسہ یہاں ہاتھ باندھے یونانی شخص کا اور ایک خاتون سائرہ کا ہے جو کتابوں پر بیٹھی ہیں۔ بیشتر کام یہاں کے طلباء کا ہے جسے ادارے نے اون کرتے ہوئے عمارت کے اندر سجایا ہے۔
این سی اے میں جا کر واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی اور ملک کے کالج میں آ گئے ہوں۔
ایک دل چسپ بات یہ کہ مال روڈ پر موجود قدیم اور تاریخی ٹولنٹن مارکیٹ کی بلڈنگ بھی اب اس ادارے کا حصہ ہے۔
حویلی فتح سنگھ، جامعہ پنجاب؛
اکتوبر 1882 میں قائم ہونے والی جامعہ پنجاب، لاہور کی سب سے بڑی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو اب ایک سو تینتالیس سال کی ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی کی سینیٹ کا پہلا اجلاس 1882 کو شملہ میں ہوا جس میں یونیورسٹی کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس کا ایک بنیادی کردار کنگز کالج لندن کے پروفیسر گوٹ لیئیب ویلہیلم لیئیٹنر تھے (جو جامعہ کے پہلے رجسٹرار بھی رہے)۔
لاہور کے علاوہ گوجرانوالہ، جہلم اور خانسپور میں بھی اس جامعہ کے کیمپس موجود ہیں۔
لاہور شہر میں ہی جامعہ پنجاب کے مختلف کیمپسز ہیں جو شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ جامعہ اتنی وسیع ہے کہ اس کو دیکھنے کے لیے کئی دن درکار ہیں اور اس ادارے میں ایک نہیں دسیوں ایسی خاص چیزیں ہیں جو اسے بقیہ اداروں سے منفرد بناتی ہیں لیکن یہاں میں صرف ایک کا ذکر کروں گا اور وہ ہے ’’شاہ دی کھوئی‘‘ کا تاریخی گاؤں اور اس کی حویلی فتح سنگھ۔
گاؤں، وہ بھی ایک یونیورسٹی میں؟ جی ہاں۔
پنجاب یونیورسٹی کے نیوکیمپس کی حدود میں واقع شاہ دی کھوئہ نامی گاؤں صدیوں پرانا ہے۔ 17 ویں صدی میں جب اسلامی اسکالر و صوفی حضرت شیخ ابوالمعالیؒ، نے شیر گڑھ سے لاہور ہجرت کی تو عبادت کے لیے ایک پرسکون ماحول کی تلاش میں اس خوب صورت مقام کا انتخاب کیا جہاں آج یہ گاؤں موجود ہے۔ یہ جگہ ان کے مراقبے کے لیے پسندیدہ جگہ بن گئی۔
اس علاقے کا نام بھی یہاں موجود ان کے کنویں کی وجہ سے شاہ دی کھوئی رکھا گیا یعنی شاہ کا کنواں۔
لیکن اس گاؤں کے اندر ایک اور تاریخی جگہ بھی ہے، سردار فتح سنگھ کی حویلی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں درباریوں اور وفادار فوجی افسروں کو زمینیں اور جائیدادیں دینے کا رواج تھا۔ سردار فتح سنگھ والا کے پردادا دھنا سنگھ بھی رنجیت سنگھ کی فوج میں بطور کمانڈر خدمات سرانجام دیتے رہے تھے جس کے صِلے میں انہیں قیمتی زمین سے نوازا گیا تھا۔ جو پھر فتح سنگھ کے باپ سے ہوتے ہوئے ان کی میراث بن گئی۔
فتح سنگھ خود بھی خالصہ دربار اور برطانوی نوآبادیاتی دور میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی وراثت میں نہ صرف یہ حویلی بلکہ گیارہ دیہات اور انگریزوں کے دور میں وسیع و عریض اراضی بھی شامل تھی۔ آج کل یہ ایک متنازعہ جائیداد ہے سو اندر جانے کے لیے اجازت درکار ہے۔
حویلی کی تعمیراتی خصوصیات کی بات کریں تو اس کے مرکزی دروازے کی محراب آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اندر ایک صحن اور اس کے گرد کمرے موجود تھے جو اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے البتہ ایک کوارٹر میں پرانی لکڑی کی بالکونی دیکھی جا سکتی ہے۔
اداروں اور جامعہ کو چاہیے کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے ورنہ عنقریب یہ محرابی دروازہ بھی منظر سے غائب ہوجائے گا۔
گھوڑا اسپتال ؛ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینیمل سائنسز
لاہور میں جانوروں سے متعلق تعلیم کا سب سے پہلا اور پرانا سرکاری ادارہ یہ جامعہ ہے جسے عرفِ عام میں یْوواس کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1882 میں بطور لاہور ویٹرنری اسکول اور پھر کالج، انگریزسرکار کی طرف سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ نا صرف برصغیر بلکہ ایشیاء میں جانوروں کے لیے اپنی طرز کا پہلا ادارہ تھا۔ جانوروں کی صحت اور ریسرچ سے متعلق اس جامعہ کے سب کیمپس نارووال، پتوکی، جھنگ، لیہ اور بہاول پور میں بھی موجود ہیں۔
ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی اس ادارے کی مرکزی عمارت آج بھی تاریخی شان و شوکت کی علامت سمجھی جاتی ہے جس کے گواہ یہاں کے محرابی دالان، گزرگاہیں اور لکڑی کے زینے ہیں۔ یوں تو یہ ساری عمارت ہی تاریخی ہے لیکن یہاں موجود گھوڑوں کی علاج گاہ اسے خاص بناتی ہے۔ جانوروں کا ادارہ ہے تو ان کی موجودگی لازم ہوگی۔ لیکن باقی اداروں کے برعکس یہاں کتے، بلیوں، خرگوشوں، مرغیوں سمیت گھوڑوں کی آمد زیادہ دیکھنے میں آتی ہے اور یہ ایک اچھاتا منظر ہے۔ اس لیے مقامی بھی اسے گھوڑا اسپتال کہتے ہیں۔
مذہبی ٹرائیکا، ایچی سن کالج
لاہور کے کسی کالج میں مندر ہے تو کسی میں سکھوں کی سمادھیاں لیکن ایک ادارہ ایسا بھی ہے کہ جس میں مندر، مسجد اور گردوارہ تینوں موجود ہیں، یہ ایک سو انتالیس برس پرانا ایچی سن کالج ہے جو جنوری 1886 میں اشرافیہ کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ کالج کا نام اس دور کے گورنر پنجاب سر چارلس ایچی سن کے نام پر رکھا گیا جب کہ سنگِ بنیاد وائسرائے ہند، فریڈرک ہملٹن بلیک وُوڈ نے رکھا تھا۔ اس ادارے کی عمارت کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ نے بنایا تھا اور جب کہ تعمیر سر گنگا رام نے کروائی جو اس دور کے معروف معمار تھے۔
چوںکہ یہاں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور بیشتر طلبہ یہیں رہتے تھے، سو ادارے کے اندر 1900 میں ریاست بہاول پور کے نواب محمد بہاول خان عباسی پنجم نے اپنی طالب علمی کے دوران ایک خوب صورت مسجد تعمیر کروائی جس کی سرخ و سفید عمارت اور تین سفید گنبد دور سے ہی آنکھوں کو تراوٹ بخشتے ہیں۔ پھر 1906 میں اسی مسجد کی طرز پر انہوں نے نور محل احاطے میں بھی ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔
ہندو اور سکھ طلباء کے لیے بھی مذہبی تعلیم لازم تھی سو ان کے لیے کیمپس میں ایک گردوارہ و مندر بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ مندر کو بعد میں پرنسپل کے دفتر کے لیے دوبارہ ڈیزائن کیا گیا جس کے سفید تکونی گنبد اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ گردواے کی عمارت بھی کافی خوب صورت ہے جس کے اوپر موجود کچھ علامات سے پتا چلتا ہے کہ یہاں کبھی گردوارہ ہوا کرتا تھا۔
تقسیم کے بعد 1948 میں قائداعظم کو اس ادارے کا پیٹرن ان چیف بنادیا گیا تھا۔ ادارے کی 125 ویں سال گرہ پر پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
تین سمادھیاں، اسلامیہ کالج سول لائنز
آریہ سماج تنظیم کی طرف سے جون 1886 کو دیانند اینگلو ویدک اسکول کے طور پہ قائم کیا گیا یہ ادارہ اس کے بانی اور مشہور ہندو راہ نما دیانند سرسوتی کے نام پر کالج بنا دیا گیا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ ادارہ اسی نام سے انبالہ منتقل ہوگیا جب کہ یہاں رہ جانے والے ادارے کا نام بدل کے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز رکھ دیا گیا جو لاہور کی شیخ عبدالقادر جیلانی روڈ پر واقع ہے۔
انجمن حمایت اسلام نے 1886 میں اس ادارے کو بطور اسکول قائم کیا جو مڈل و سکینڈری سکول سے ہوتا ہوا 1892 میں کالج بنادیا گیا۔ 1914 میں ادارے کی پہلی عمارت واقع ریلوے روڈ مکمل ہوئی جب کہ ایم اے اور بی اے کی کلاسز کو تقسیم کے بعد ڈی اے وی کالج (جسے اسلامیہ کالج سول لائنز کا نام دیا گیا تھا) کی عمارت میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اسلامیہ کالج کا نام آتے ہی تحریک پاکستان یاد آ جاتی ہے کہ اس تحریک کو ادارے کے طالب علموں نے اپنے لہو سے سینچا ہے۔
اس کالج کے اندر ایک چبوترے پر تین تاریخی سمادھیاں موجود ہیں۔
ان میں سے ایک سمادھی راج کور عرف ’’داتر کور‘‘ سے منسوب کی جاتی ہے جو نکئی مثل کے سردار رن سنگھ کی بیٹی اور مہاراجا رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی تھیں۔ راج کور چوںکہ رنجیت سنگھ کی والدہ کا نام بھی تھا سو مہاراجا نے انہیں پیار سے ’’نکائن کور‘‘ کا نام دیا جو مائی نکائن کے نام سے مشہور ہوا۔
سوہن لال سوری ’’عمد التواریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مہاراجا اور مہارانی دونوں شکار کے سفر سے شیخوپورہ واپس آئے اور بیمار ہوگئے۔ مہارانی مر گئی لیکن رنجیت سنگھ ٹھیک ہوگیا۔ رنجیت سنگھ اپنی بیوی کے لیے بہترین چاہتا تھا، اس لیے شاہی باغ لاہور کا انتخاب کیا گیا اور مائی نکین کی راکھ یہاں دفنا دی گئی۔
ان میں سے ایک سمادی راج کور المعروف نکان کورس سے منسوب کی جاتی ہے۔ راجکور پتوکی کے نقائی سردار رن سنگھ کی بیٹی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی اور کھڑک سنگھ کی والدہ تھی۔ رنجیت سنگھ سے اس کی شادی ڈیش میں ہوئی۔ ترنجیت سنگھ نے پیار سے انہیں نکاائن کار کا نام دیا یعنی مائی
دوسری سمادھی ’’چندر کور‘‘ سے منسوب کی جاتی ہے جو رنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، راجا کھڑک سنگھ کی بیوی اور نونہال سنگھ کی والدہ تھیں۔ اپنے بیٹے کے تخت نشیں ہونے کے بعد انہیں راج ماتا کا عہدہ ملا اور چاند کور نے ’’ملکہ مقدس‘‘ کے لقب سے تخت لاہور سنبھالا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ آنجہانی مہاراجا نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور کے بطن سے ہونے والے بچے کی نگراں کے طور پر سربراہی کے فرائض سرانجام دے گی۔ اس دورمیں سلطنت کے وزیراعظم دھیان سنگھ ڈوگرہ اور شیر سنگھ نے مل کر مہارانی و سندھیانوالہ سرداروں کے خلاف جنگ لڑی جو شدید خوںریزی کے بعد ایک معاہدے پر ختم ہوئی۔ چندر کور کو حکومت سے بے دخل کر کے حویلی نونہال سنگھ بھیج دیا گیا۔ عمدہ التواریخ میں سوہن لال سوری لکھتے ہیں کہ انہیں ان کے بہنوئی شیر سنگھ اور وزیراعظم دھیان سنگھ کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔
یہاں تیسری سمادھ چندر کور کی لاڈلی بہو ’’صاحب کور‘‘ سے منسوب کی جاتی ہے جو نونہال سنگھ کی بیوی تھیں۔ صاحب کور نے ایک مردہ لڑکے جواہر سنگھ کو جنم دیا جس کے بعد حکومت پر اس خاندان کی دعوے داری ختم ہو گئی۔ سوہن لال سوری کے مطابق نونہال سنگھ کی بیواؤں کو شیر سنگھ نے خفیہ طور پر ایسی ادویات دیں جس سے ان کا اسقاطِ حمل ہو گیا اور تخت کا کوئی وارث نہ بچا۔
ساس بہوؤں کی یہ سمادھیاں آج بھی چپ چاپ اسکول کے ایک کونے میں کھڑی تاریخ کے قتل و غارت کی گواہی دے رہی ہیں۔
سِسٹر سٹونز؛ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی
پاکستان کی سب سے پرانی اور پنجاب کی سب سے بڑی سرکاری انجنیئرنگ یونیورسٹی کا قیام 1921 کو عمل میں لایا گیا جسے انگریز گورنر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن نے بطور مغلپورہ ٹیکنیکل کالج کے قائم کیا تھا۔ 1923 میں اس کا الحاق جامعہ پنجاب سے کیا گیا جب کہ 1961 میں اس کا نام بدل کے ’’مغربی پاکستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ رکھا گیا۔ موجودہ نام 1971 میں رکھا گیا۔
اس جامعہ میں فی الوقت چھے فیکلٹیز ہیں جن کے تحت 23 ڈیپارٹمنٹس کام کر رہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق یہ جامعہ ملک کی چند بہترین انجنیئرنگ یونیورسٹوں میں سے ایک ہے۔
یہاں کے سو سال سے بھی پرانے مرکزی بلاک کے سامنے دو سنگِ مرمر کی تختیاں لگی ہیں جو ایک ہی تاریخ اور مہینے میں لگائی گئی ہیں لیکن دونوں کے بیچ سو سال کا فرق ہے۔ ایک افتتاحی تختی ہے جو اس وقت کے گورنر پنجاب سر ایڈورڈ ڈگلس میکلیگن کے ہاتھوں لگائی گئی تھی جس پہ درج ذیل الفاظ درج ہیں؛
THIS STONE WAS LAID BY HIS EXCELLENCY
SIR EDWARD DOUGLAS MACLAGAN
GOVERNOR OF THE PUNJAB
ON THE 9TH DAY OF NOVEMBER 1921.
جب کہ 9 نومبر 2021 کو ٹھیک سو سال بعد لگائے جانے والے نئے کتبے پر یہی الفاظ لکھے ہیں، لیکن گورنر پنجاب کی جگہ چوہدری محمد سرور کا نم جگمگا رہا ہے۔ یوں عمارت کے دونوں طرف سو سال پر محیط تاریخ کی گواہ دو تختیاں نصب ہیں۔
اس کے علاوہ اس یونیورسٹی کا پنگا شیک بھی بہت مشہور ہے جو دور دور سے لوگ پینے آتے ہیں۔ اب واقعی یہ چیز خاص ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آپ خود پی کے کریں تو بہتر ہو گا۔
پرانا مندر، گورنمنٹ ایم اے او کالج
گورنمنٹ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج جسے عرف عام میں ایم اے او کالج بھی کہا جاتا ہے، 1933 میں قائم کیا گیا تھا جسے قیامِ پاکستان کے بعد سناتن دھرم کالج لاہور کی عمارت میں منتقل کردیا گیا تھا۔
اس ادارے کی بنیاد انجمن اسلامیہ نے امرتسر میں رکھی تھی جسے علی گڑھ کے طرز پر مسلم طلباء کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت ادارے کا زیادہ تر عملہ اور طلباء لاہور چلے گئے جہاں سابق سناتن دھرم کالج (قائم شدہ 1916) کے احاطے میں ایم اے او کالج امرتسر کو منتقل کیا گیا تھا۔ اسی طرح لاہور کا سناتن دھرم کالج انبالہ کینٹ منتقل ہو گیا تھا۔
کالج تو منتقل ہو گیا لیکن اس کی نشانیاں باقی رہ گئیں۔
اس کالج میں آج بھی ہندوؤں کا ایک پرانا مندر دیکھنے کو ملتا ہے جو کالج کے بوٹینیکل گارڈن کے اندر ہے۔
یہ مندر کب اور کس نے تعمیر کیا اس بارے کوئی دستاویز دست یاب نہیں البتہ اس کی تعمیر سے یہ بہت زیادہ قدیم نہیں لگتا۔ مندر کی تعمیر مٹی کی جلی ہوئی اینٹوں سے کی گئی ہے جو عام طور پر مغل فن تعمیر میں ’’لکھوری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
مندر ایک منزل پر مشتمل ہے جس کا مرکزی کمرا چونے سے بنے پھولوں کے گلدستے سے بھرا ہوا ہے۔ ہر مندر کی طرح محرابی دروازے یہاں بھی موجود ہیں۔
اگرچہ ہندوؤں کے تعلیمی ادارے میں کسی مندر کا ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن یہ بات لائقِ تحسین ہے کہ اسے ملک کا ورثہ سمجھتے ہوئے برقرار رکھا گیا۔ مسجد کی ضرورت پڑی تو وہ بھی اس کے پہلو میں بنائی گئی۔
اس مندر کے ستونوں پ خوب صورت نقش و نگار بنے ہیں جب کہ بقیہ عمارت کی حالت نازک ہے۔ آج یہ مندر اگرچہ ویران پڑا ہے لیکن ذرا سی توجہ سے بحال کیا جا سکتا ہے۔
یہ تو تھے لاہور کے چیدہ چیدہ ادارے لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ہیں جن میں بہت کچھ خاص ہے۔ آپ کے ادارے میں ایسا کیا ہے جو اسے سب سے منفرد بناتا ہے؟