رجعت پسند سوچ اور خواتین کی تعلیم کا حق

خیبر پختونخوا میں مذہبی انتہا پسندوں کا نشانہ بننے والی چیزیں بدلتی نہیں ہیں۔30 برس گزرنے کے باوجود آج بھی طالبات کے اسکول اور پولیو کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے رضا کار اسی شدت پسندی کی زد میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں نامعلوم افراد نے طالبات کے ایک اسکول کو تباہ کیا اور چند ہی دن بعد اسی تحصیل میں ایک اور اسکول کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں سیکڑوں بچیاں تعلیم کے حق سے محروم ہوگئیں۔

اسی طرح ضلع باجوڑ میں جب گزشتہ ہفتے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم دوبارہ شروع ہوئی تو انتظامیہ نے عملے کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیا، مگر اس کے باوجود تحصیل سالار میں پولیو ٹیم پر حملہ کردیا گیا، اس حملے میں دو افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک پولیس سپاہی اور دوسرا ایک راہگیر شامل تھا۔ایک صحافی کی جانب سے گزشتہ13 برسوں کے دوران پولیو ٹیموں پر ہونے والے مسلح حملوں کے اعداد و شمار مرتب کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق اس عرصے میں 170 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 124 پولیس اہلکار، 21 شہری اور 28  ہیلتھ ورکرز شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس المیے کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔یہ تمام حملے دراصل اس رجعت پسند سوچ کا تسلسل ہیں، جس کی جڑیں طالبان کے نظریے میں پیوست ہیں۔

طالبان کا ظہور افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم مختلف مدرسوں سے ہوا اور وہ اپنی شدت پسندانہ فکر کے اسیر رہے۔ جب 2022 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ملاہیبت اللہ اخوند زادہ ان کے سربراہ بنے، جو خود کو طالبان کے فکری حامی مسلمانوں کا امیر قرار دیتے ہیں۔ ابتدا ء میں یہ خیال ظاہرکیا گیا کہ اب طالبان کی قیادت میں تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں، اس لیے شاید وہ ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے جدید دنیا کے اصول اپنائیں گے، مگر وقت نے ثابت کردیا کہ یہ محض ایک خوش فہمی تھی۔

ابتدائی چند مہینوں میں کابل اور بعض دوسرے شہروں میں خواتین کو تعلیم اور روزگار کی محدود اجازت دی گئی، مگر جلد ہی قندھار سے جاری ہونے والے حکم ناموں نے خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ افغانستان امور کے ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ کابل کی مقامی شوریٰ کا نہیں بلکہ قندھار شوری کا تھا، جس میں ملا عمر کی باقیات شامل ہیں۔ ملا عمر، طالبان کے پہلے سربراہ کا نظریہ یہی تھا کہ خواتین کو گھروں تک محدود رہنا چاہیے اور تعلیم کا حق نہیں ملنا چاہیے۔

اسی سوچ کے اثرات پاکستان میں بھی نمایاں ہوئے۔ پشاور کے صحافیوں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان قبائلی علاقوں میں خلافت قائم کرنے کا خواب دیکھتی ہے، اسی لیے ان کا پہلا ہدف ہمیشہ طالبات کے اسکول بنتے ہیں۔ سوات میں جب ملا فضل اللہ، المعروف ریڈیو ملا، نے قبضہ کیا تو سب سے پہلے لڑکیوں کے اسکول تباہ کیے گئے۔ اسی تناظر میں سوات کی ایک طالبہ ملالہ یوسف زئی نے تعلیم کے حق کے لیے آواز بلند کی، جس کے نتیجے میں وہ طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہوئیں۔ بروقت علاج کے لیے انھیں برطانیہ منتقل کیا گیا، جس کی بدولت وہ آج زندہ ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ 1990 کی دہائی میں جب عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ پاکستان میں پولیو تیزی سے پھیل رہا ہے اور بچوں کو قطرے پلانا ناگزیر ہے، تو اسی رجعت پسند سوچ نے اس مہم کی مزاحمت کی۔ اس وقت یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ پولیو ویکسین مغربی سازش ہے اور بچوں کو جنسی طور پر معذور بنانے کے لیے دی جا رہی ہے۔

بعد ازاں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے نے اس پروپیگنڈے کو مزید ہوا دی، جس کے بعد پولیو ٹیموں پر حملے بڑھ گئے۔پولیو ایک ایسا مرض ہے جو سرحدوں کو نہیں مانتا۔ یہی وجہ ہے کہ چند برس قبل عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان پولیو ختم کرنے میں ناکام رہا تو پاکستانی شہریوں کے بیرونِ ملک سفر پر پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ اس خطرے کے پیش نظر حکومت نے پولیو مہم کو سنجیدگی سے شروع کیا، مگر رجعت پسند آج بھی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے کارکن قاضی خضر حبیب کے مطابق طالبات کے اسکولوں کی تباہی اور پولیو ورکرز پر حملے دراصل اسی رجعت پسند فکر کا نتیجہ ہیں، جسے ریاست نے ختم نہیں کیا۔ جب تک اس سوچ کے خلاف ادارہ جاتی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جائے گی، شدت پسندوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے جگہ ملتی رہے گی۔

ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے کہ طالبات کے اسکولوں کو نشانہ بنانے والوں اور پولیو کارکنوں پر حملے کرنے والے عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے اور ساتھ ہی رجعت پسند سوچ کے خاتمے کو قومی ایجنڈے کے طور پر اپنائے۔ جب تک یہ فکری جنگ نہیں جیتی جاتی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق مسلسل خطرے میں رہیں گے۔

Similar Posts