بڑا ذمے دار کون تھا؟

بہت سے قارئین نے کہا بھی اور لکھا بھی کہ کیا ہم 16 دسمبر کا سانحہ بھول جائیں؟ اور کیا اب اس پر بات بھی نہ کریں… یہ تو زندہ قوموں کا شعار نہیں ہے۔ زندہ قومیں اتنے بڑے صدموں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ وہ Soul searching کرتی ہیں، اپنی ہمالیہ جیسی غلطیوں (Blunders) کا بے لاگ جائزہ لیتی ہیں، سبق سیکھتی ہیں اور آیندہ غلطیاں نہ دہرانے کا عہد کرتی ہیں اور پھر اس عہد پر پورا بھی اترتی ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو بھی ایک ہزیمت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر جرمن قوم نے اس سانحے سے سبق سیکھنے کا عہد کیا، اور پھر وہ عہد نبھایا تو چند ہی سالوں میں وہی شکست خوردہ جرمنی پورے یورپ کا چوہدری بن گیا۔ اسی طرح جاپان نے بھی غلطیوں سے سبق سیکھا، غلطیاں نہ دہرانے کے عہد پر عمل کیا اور وہ چند سالوں میں دنیا کی اقتصادی سپر پاور بن گیا۔ ہم اپنی غلطیوں کا نہ احساس کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے سبق سیکھتے ہیں، اس لیے آگے نہیں بڑھ رہے اور دائروں کے سفر میں ہی گھوم رہے ہیں۔

کیا کریں دسمبر آتے ہی زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ جسدِ ملّت پر لگا ہوا زخم اتنا گہرا ہے کہ قیامت تک نہ بھر سکے گا۔ سقوطِ بغداد کے بعد سقوطِ ڈھاکا اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ میں اس وقت اسکول کا طالبِ علم تھا، میں نے خود اس سانحے پر انتہائی باوقار لوگوں کو دیوانہ وار روتے اور دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا ہے۔

میں نے پہاڑوں جیسا مضبوط حوصلہ رکھنے والے اپنے والد محترم کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس سانحے پر ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ لوگوں نے کئی روز تک نہ کچھ پکایا اور نہ کھایا۔ شہروں میں ہی نہیں دیہاتوں میں بھی سوگ کی کیفیّت تھی۔ ان پڑھ لوگ بھی سمجھتے تھے کہ بابا کی نگری لُٹ گئی ہے، آشیانے کے تنکے بکھر جانے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی۔

کیا یہ ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب نہیں ہے؟ ہم تاریخ کے ان اوراق کو نئی نسل سے کیوں چھپانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ قائدؒ کے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والے مجرموں کی شناخت مٹا دی جائے اور ان کے چہرے ڈھانپ دیے جائیں؟ زندہ قومیں ایسے نقوش نئی نسل سے چھپاتی نہیں، انھیں بتاتی اور پڑھاتی ہیں۔ وطنِ عزیز کا ایک بازو کٹ جانے کا جب بھی ذکر ہوتا ہے، ذمّے داری کا گند ایک دوسرے پر پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ اور سابق مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل نیازی کو سب سے بڑا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ شیخ مجیب الرحمن کو غدار اور ذوالفقار علی بھٹو کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ سب ذمّے دار تھے۔

اس وقت کے چند جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار، سیاستدانوں کی مفاد پرستی اور دشمن کی فوجوں نے مل کر پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا اور ہمیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔ مگر زیادہ ذمے دار کون ہے اور بڑا مجرم کون ہے؟اُس وقت کے حالات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔

1970کے انتخابات میں عوامی لیگ نے بھی دوسری پارٹیوں کی طرح حصہ لیا، اس سے پہلے شیخ مجیب پر اگرتلا سازش کیس بنایا گیا تھا، اگر شواہد درست تھے تو اسے سزا دلوانی چاہیے تھی لیکن اگر اسے ٹرائل کرکے سزا نہیں دلوائی گئی اور انتخابات میں اس کی پارٹی پر پابندی نہیں لگائی گئی اور اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تو پھر عوامی لیگ کو اس کے سیاسی حقوق سے محروم کرنے کا کیا جواز تھا؟ شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 1970کے جنرل الیکشنز میں 167 اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 88 سیٹیں جیتیں۔ ریت اور روایت یہی ہے کہ انتخابات کے بعد صدر قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتا ہے، اجلاس میں جو شخص اپنی اکثریّت ثابت کردے، وہ وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے اور اقتدار اسے سونپ دیا جاتا ہے۔

10 دسمبر 1970 کو انتخابات مکمل ہوگئے مگر سیاہ وسفید کے مالک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیٰی خان نے پہلے تو قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ نہ دی، بعد میں تاریخ تو دے دی مگر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر سودے بازی اور سازشیں شروع کردیں۔ بھٹو نے اپنی پارٹی کے ممبران کو ڈھاکا میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے سے منع کردیا بلکہ یہاں تک کہا کہ ’’میری پارٹی کا جو ایم این اے اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘۔ ایسے بیانات کی وجہ سے کچھ لوگ بھٹو کو بھی پاکستان توڑنے کا ذمے دار قراردیتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ درست نہیں، ہمارے ہاں ہر سیاستدان سسٹم سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا خواہشمند ہوتا ہے۔

آپ اسے ذوالفقار علی بھٹو کا مفاد پرستانہ اور غیر جمہوری رویّہ کہہ سکتے ہیں، مگر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور اکثریتی پارٹی کو اقتدار سونپنے کا اختیار بھٹو کے پاس نہیںبلکہ یحیٰی اور اس کے ٹولے کے پاس تھا۔ یحییٰ ایک طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لُوٹنا چاہتا تھا اور اس کے لیے وہ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ سودے بازی کررہا تھا کہ وہ اسے صدر بنانے کے لیے تیار ہوجائیں، اسی سازش کے تحت اس نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا، سابق مشرقی پاکستان کے گورنر اور عسکری کمانڈر صاحبزادہ یعقوب علی خان نے کافی اصرار کیا کہ یحییٰ خان قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ کا اعلان کردے مگر اقتدار کی ہوس میں بری طرح مبتلاء جنرل یحییٰ اس کے لیے تیار نہ ہوا بلکہ اس نے عوامی لیگ کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کرادیا جس میں مجیب الرحمن اور دوسرے لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

عوامی لیگ کو جب اس کے حقوق سے محروم کردیا گیا تو اس نے ریاست کے خلاف بغاوت کردی، ہمارا ازلی اور ابدی دشمن بھارت عرصۂ دراز سے اس انتظار میں تھا۔ اس طرح ہمارے یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کی ہوس، سیاستدانوں کی مفاد پرستی اور فیصلہ سازوں کی کوتاہ اندیشی نے مل کر بھارت کو یہ موقع فراہم کردیا اور اس نے عوامی لیگ کے ملٹری ونگ مکتی باہنی کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور پھر Rest is history۔ ہمیں شکست ہوئی، ہمارا مشرقی بازو ہم سے کٹ گیا۔ اور ہمارے نوّے ہزار لوگ دشمن کی قید میں چلے گئے۔

اس سانحے کے عوامل اور جنگ کے بارے میں بے شمار کتابیں پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے میں پہنچا ہوں کہ یہ ہمارے بہادر سولجرز کی شکست نہیں تھی۔ وہ ہر محاذ پر بڑی جرأت اور جذبے کے ساتھ لڑے اور وطن کا دفاع کرتے رہے۔

حتٰی کہ دشمن ملک کے جرنیلوں نے بھی ہمارے بہت سے افسران کی دلیری اور جانثاری کی تعریف کی۔ چند سال پہلے مجھے جنرل طاہر محمود قاضی نے کرنل سلطان (بعد میں بریگیڈیئر) کی کتاب دی، جس میں جمال پور پوسٹ کا دفاع کرنے والے بہادر کیپٹن احسن کی بے مثال شجاعت کی کہانی پڑھی تو میں نے اپنے ہیرو کو تلاش کیا اور اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کے لیے اس کے گھر پہنچ گیا (ملاقات پر معلوم ہوا وہ میرے ساتھ پی آئی اے میں سرو کرچکا ہے) اُس موقع پر بھی اس نے بتایا جنرل نیازی ایک غلط شخص تھا اور دوران جنگ بھی اپنی حرکتوں سے بعض نہیں رہا۔ جب بھارتی جنرل مشرقی پاکستان کی سرزمین پر اترا تو نیازی اس کے استقبال کے لیے خود پہنچ گیا۔ بھارتی جنرل کے بقول ’’میرا خیال تھا کہ پاکستان کا جنرل نیازی شکست اور سرنڈر کے صدمے سے دوچار ہونے کی وجہ سے بالکل خاموش رہے گا مگر وہ جیپ میں بیٹھتے ہی ہمیں ذومعنی لطیفے سنانے لگا‘‘۔

سابق مشرقی پاکستان میں تعینات میجر سے لے کر میجر جنرل تک کے افسر کہتے ہیں کہ ہم کئی مہینوں تک ڈھاکا کا دفاع کرسکتے تھے۔ اس دوران یو این او کی مداخلت سے سیز فائر ہوجاتا اور ہم سرنڈر کی ہزیمت سے بچ سکتے تھے۔ خود بھارتی جرنیل اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں اور تقریباً سب نے لکھا ہے کہ یحییٰ اور نیازی کی طرف سے سرنڈر اور ہتھیار پھینکنے کی اس قدر جلدی خود ہمارے لیے حیران کن تھی۔ مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے والے کرنل تک کے پچانوے فیصد افسران جنرل نیازی کو سب سے بڑا ذمے دار قرار دیتے ہیں، جنرل یعقوب علی خان اور سینئر لوگ جنرل یحییٰ کا بھی یہی خیال تھا، میرے خیال میں اس سانحے کی اسّی فیصد ذمے داری یحییٰ، نیازی اور اُس وقت کے حکمران ٹولے پر اور بیس فیصد ذّمے داری بھٹو سمیت دوسرے سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں پر عائد ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے ذمے داروںکو سزا کیوں نہ دی گئی؟ کسی ایک کو بھی نہیں!

جو قومیں کڑا احتساب (Ruthless Accountability) کرتی ہیں وہی زندہ رہتی اور آگے بڑھتی ہیں۔

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

 کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نوٹ: کیا ہماری وزارتِ خارجہ اور متعلقہ ادارے بنگلہ دیش کی تشویشناک صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ ہیں؟

Similar Posts