کمیشن والی دوائیں اور لیبارٹری ٹیسٹ

ڈاکٹر صاحبان 80 اور 90 کی دہائی میں مریضوں کا علاج اپنی تعلیم، تجربے اور تشخیصی صلاحیت کے بل بوتے پر کرتے تھے اور بجا طور پر اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ عموماً ڈاکٹر صاحبان اس خوبی کو اپنی پہچان بھی قرار دیتے تھے تاہم بعض اوقات ضرورت پڑنے پر لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج سے اپنی تشخیص کی تصدیق کرلیتے تھے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کرواتے ہوئے ڈاکٹر صاحبان کا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا تھا کہ مریض کو یہ اضافی زحمت اور خرچہ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

2000 کے بعد یہ طریقہ علاج غیر پیشہ ورانہ قرار پایا اور یوں تقریباً متروک ہوگیا۔ اس کے بعد مریضوں کے علاج کا طریقہ کار تحقیقاتی قرار پایا اور یوں تشخیصی طریقہ کار پش پشت چلا گیا اور اب تو شاید ڈاکٹر صاحبان اس کو بھول بھی چکے ہیں۔ تحقیقاتی علاج میں پورا زور لیبارٹری ٹیسٹ پر ہوتا ہے۔ مریض جیسے جیسے علامت یا علامات بتاتا جاتا ہے ڈاکٹر ٹیسٹ لکھتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ٹیسٹ لکھتے لکھتے لیبارٹری میں اتنا اندر چلا جاتا ہے کہ خود مالک بن کر باہر نکلتا ہے اور اگر مالک نہیں تو حصہ دار تو پکا پکا ہوتا ہے، جس کو ہر مریض پر بے قاعدہ یا باقاعدہ کمیشن ملتا ہے اور کمیشن لینے والے کو کیا بولتے ہیں یہ میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں لیکن آپ انھیں کچھ بھی کہہ سکتے مگر شاید کیا یقیناً ڈاکٹر نہیں کہہ سکتے ہیں۔

یہ کمیشن دینے والا کام صرف لیبارٹری مالکان ہی نہیں کررہے بلکہ دواساز ادارے بھی کررہے ہیں۔ ان دونوں نے ڈاکٹروں کو کچھ اس طرح سے اپنے چنگل میں پھنسایا ہے کہ اگر بچے کا پیمپر بھی لینا ہوں تو انھیں یہ ادارے یاد آتے ہیں، گویا ان کے نزدیک ان اداروں کے بغیر زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ حالات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے، میں نے خود 80 کی دہائی میں ایک کثیرالقومی دواساز ادارے سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی اور آخری نوکری رہی جو میں نے کسی دواساز ادارے میں کی تھی۔ اس دور میں حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ دواساز ادارے کے نمائندے ڈاکٹر صاحبان کو اپنی ادویہ کے سیمپل فراہم کرتے تھے یا کبھی کبھی کچھ چھوٹے موٹے تحفے جیسے قلم، رائٹنگ پیڈ اور کچھ ایسی چیزیں جو ان کے پیشہ ورانہ کام میں معاون ہوسکتی ہوں، دیتے تھے۔

عام طور پر بین الاقوامی ہوائی سفر کا ٹکٹ کسی کانفرنس میں شرکت کے نام پر دیا جاتا تھا کہ جس کے ساتھ سفری خرچ زرمبادلہ کی شکل دیا جاتا تھا۔ اگر کسی پروفیسر کو ایئر کنڈیشن یا صوفہ سیٹ بھی دیا جاتا تو وہ ان کے سرکاری اسپتال کے کمرے کےلیے ہوتا کیونکہ سرکاری بجٹ سے کچھ بھی منظور کروانا بہت مشکل ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔ یہ بجٹ عام طور پر بہت دیر سے ملتا تھا۔ آنے والے دنوں میں یہ سہولت یا خرافات پہلے ذاتی کلینک تک پہنچی پھر گھر اور اب تو نقد کا زمانہ ہے اور ادھار محبت کی قینچی ہے۔ ادویات میں یہ کمیشن تیس سے پچاس فیصد تک ہے اور جراحی کے آلات اور پرزہ جات میں تو دو سو فیصد بلکہ اس سے بھی زائد ہوتا ہے۔ آپ نے دل کے امراض میں اسٹنٹ کے استعمال اور اس کی قیمت کے حوالے سے اسکینڈل کے بارے میں ضرور پڑھا اور سنا ہوگا۔

ادویہ کے کمیشن کی نقد کے علاوہ شکل بیرونی ملک کے دورے ہیں۔ کچھ ادوار میں تو ڈاکٹر صاحبان کو مشرق بعید کے دورے بھی کروائے جاتے تھے، جہاں وہ جاتے تو ڈاکٹر کی حیثیت سے تھے لیکن واپسی کبھی کبھار مریض کے طور پر ہوتی تھی اور مرض کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے مقابلے میں مذہبی حضرات مشرق وسطیٰ کے مذہبی مقامات کی زیارات کے متمنی ہوتے اور دواساز ادارے سے ویزا، ٹکٹ اور زرمبادلہ چاہتے اور اللہ سے ثواب کے طلبگار ہوتے۔ وہ چونکہ ادارے کی خواہش پوری کرچکے ہوتے تھے اس لیے ادارہ تو ان کی خواہشات یا ضروریات پوری کردیتا تھا۔ ثواب کا حال اللہ جانے۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے ڈاکٹر صاحبان یہ کمیشن والی ادویہ دیتے ہیں اور ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ ان میں اچھے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور جنھوں نے اس شعبے کا انتخاب بہت خلوص اور نیک نیتی سے کیا تھا اور آج کے اس پر آشوب دور میں بھی ثابت قدم ہیں۔ جب بھی کوئی ڈاکٹر کسی مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کا کہے یا کسی مخصوص میڈیکل اسٹور سے دوا لینے کا کہے تو آپ سمجھ لیجئے کہ اس میں اُس ڈاکٹر کا کمیشن ہے اور یہ کمیشن والا ڈاکٹر ہے۔ آپ چاہے تو یہ بات اس کے منہ پر بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں یہ کام ایک سے زائد مرتبہ کرچکا ہوں۔

سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت ساری ویڈیوز اور دیگر پیغامات کے ذریعے اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک ویڈیو میں تو یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک ڈاکٹر میاں بیوی لوگوں کو بلا ضرورت ٹیسٹ اور دوائیں لکھ کر دیتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کے ساتھ ورلڈ ٹور پر جاسکے لیکن اتنے پیسے جمع ہونے سے پہلے ہی ان کے گھر میں آگ لگ جاتی اور بچوں سمیت گھر جل جاتا ہے۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس میں دل کو دہلا دینے والا پیغام ہے۔

آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ ایک صاحب کو ایک طوائف پسند آجاتی ہے اور اس سے شادی کرنے کو بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ بس ان کی شرط یہ ہوتی ہے کہ شادی کے بعد خاتون کو اپنا پیشہ چھوڑنا ہوگا اور ایک گھریلو خاتون کی طرح زندگی گزارنی ہوگی۔ خاتون منظور کرلیتی ہے اور یوں شادی ہوجاتی ہے۔ شادی کے کچھ مہینوں بعد یکایک پولیس کا چھاپہ پڑتا ہے اور پولیس اس شخص کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔ اس پر الزام ہوتا ہے کہ موصوف جعلی ادویہ اور منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ خاتون اپنے شوہر سے ملنے حوالات میں جاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ اگر حرام ہی کھانا تھا تو میری کمائی میں کیا خرابی تھی؟ اس میں سمجھنے والوں کےلیے بہت کچھ اور نہ سمجھنے والوں کےلیے یہ قصہ ایک کہانی سے زیادہ کچھ نہیں۔ فیصلہ متعلقہ لوگوں یا ڈاکٹروں نے کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Similar Posts