یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے روس کے ساتھ جاری جنگ کے خاتمے سے متعلق ایک نئی شرط سامنے رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر روس ڈونباس کے علاقوں سے اپنی فوج واپس بلاتا ہے تو یوکرین بھی اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
صدر زیلنسکی نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ اس معاملے پر امریکا کی جانب سے ڈونباس کو آزاد اقتصادی زون بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جس کا یوکرین جائزہ لے رہا ہے، تاہم اس منصوبے کی حکمرانی، سیکیورٹی اور ترقی سے متعلق کئی اہم پہلو اب تک واضح نہیں ہو سکے۔
زیلنسکی کے مطابق یہ تجاویز ایک وسیع امن منصوبے کا حصہ ہیں، جس پر امریکا، یورپی ممالک اور یوکرین کے حکام کے درمیان حالیہ دنوں میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ امن منصوبہ سیاسی اور معاشی مفادات کو یکجا کرتے ہوئے یوکرین کی سلامتی برقرار رکھنے اور معیشت کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔
صدر زیلنسکی نے واضح کیا کہ ڈونباس، جس میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے صنعتی علاقے شامل ہیں، اس منصوبے کا سب سے مشکل اور حساس نکتہ ہے اور اس پر حتمی بات چیت سربراہانِ مملکت کی سطح پر ہی ممکن ہو سکے گی۔
یوکرینی صدر نے بتایا کہ روس پہلے ہی لوہانسک کے بیشتر حصے اور ڈونیٹسک کے تقریباً ستر فیصد علاقے پر قابض ہے، جبکہ ماسکو مسلسل یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ یوکرین باقی ماندہ ڈونباس بھی چھوڑ دے، جسے کیف نے مسترد کر رکھا ہے۔
اس تعطل کو توڑنے کے لیے امریکا کی جانب سے آزاد اقتصادی زون کی تجویز دی گئی ہے، تاہم یوکرین کا مؤقف ہے کہ کسی بھی حتمی معاہدے کا انحصار ریفرنڈم پر ہونا چاہیے تاکہ اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ عوام خود کریں۔
صدر زیلنسکی نے مزید کہا کہ یوکرین ڈونباس کو غیر فوجی علاقہ بنانے اور وہاں بین الاقوامی فورسز کی تعیناتی کا بھی مطالبہ کر رہا ہے تاکہ کسی بھی معاہدے کے بعد امن کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان کے مطابق مجوزہ منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ معاہدے پر دستخط کے بعد مشرقی محاذ پر رابطہ لائن کو منجمد کر دیا جائے اور اس دوران ساٹھ دن تک جنگ بندی برقرار رہے تاکہ ریفرنڈم کا عمل مکمل ہو سکے۔
امن تجاویز میں ایک اور پیچیدہ مسئلہ زاپوریزہیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کا مستقبل بھی ہے، جو اس وقت روس کے کنٹرول میں ہے۔
امریکا نے تجویز دی ہے کہ اس پلانٹ کو یوکرین، امریکا اور روس کے مشترکہ کنسورشیم کے تحت چلایا جائے۔
تاہم زیلنسکی نے کہا کہ اس حوالے سے امریکا کے ساتھ مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
یوکرین نے متبادل طور پر امریکا کے ساتھ مشترکہ منصوبے کی تجویز دی ہے جس میں سرمایہ کاری اور انتظامی معاملات طے کیے جائیں۔
روسی حکام نے فی الحال یوکرین اور امریکا کی ان تجاویز پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ روس اپنی پوزیشن امریکی مذاکرات کاروں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر طے کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماسکو تمام تجاویز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔
صدر زیلنسکی کے مطابق امن منصوبے میں یوکرین کو مضبوط سکیورٹی ضمانتیں دینے کی بات بھی شامل ہے، جو نیٹو کے آرٹیکل فائیو سے ملتی جلتی ہوں گی، تاکہ مستقبل میں کسی ممکنہ روسی جارحیت کی صورت میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام امور پیچیدہ اور طویل مذاکرات کے متقاضی ہیں، لیکن یوکرین کی خواہش ہے کہ جنگ کا ایسا حل نکالا جائے جس میں عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو۔