مزاح و خوش طبعی کے آداب و احکام

اﷲ رب العزت نے انسان کی فطرت میں جہاں متانت، وقار اور سنجیدگی کا وصف رکھا ہے وہیں کبھی کبھی ہنسی مذاق اور خوش طبعی کا جذبہ بھی رکھا ہے۔ ہنسی مذاق، تفریح اور ظرافت بھی انسانی فطرت میں داخل ہے، اس لیے کسی انسان کا اس جذبے سے بالکل ہی خالی ہونا بھی ایک طرح کا عیب اور نقص ہے۔

زندہ انسان زندہ دل ہوتا ہے اور کبھی بھی وحشت، ترش و سخت کلامی کی تصویر نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی زندہ دل انسان کی یہ پہچان نہیں کہ وہ ہمیشہ ترش روئی اور ناراضی کے ساتھ منہ بگاڑ کر ہی رہے، بلکہ زندہ دل انسان کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ خندہ پیشانی و خوش طبعی سے پیش آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی خوشی اور قلبی شادمانی حاصل کرنے کے لیے شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے خندہ پیشانی اور خوش طبعی بھی ضروری ہے۔ اس سے آپس میں انسیت، مسرت اور محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور وحشت و اجنبیت دور ہوتی ہے، جو اسلام میں محبوب اور مطلوب ہے۔

حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرات صحابہ کرام نے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! (آپؐ نے تو ہمیں مزاح سے منع فرمایا تھا، اس کے باوجود) آپؐ ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں (مزاح میں بھی) حق بات ہی کہتا ہوں۔ (ترمذی) یعنی ایسی کوئی بات نہیں کہتا جو خلاف واقع ہو، یا غلط اور باطل ہو، اور ایسا مزاح یعنی ہنسی مذاق شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے کیا جائے تو جائز ہے۔

رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ ﷺ تمام لوگوں سے مسکرا کر خندہ پیشانی سے ملا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی مسکرانے والا نہیں دیکھا۔ جہاں تک تعلق ہے خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا، تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنے رفقاء و ازواج مطہراتؓ کے ساتھ بعض اوقات خوش طبعی اور ہنسی مذاق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہنسی مذاق بھی نہایت لطیف، بامعنی، حقیقت سے بھرا اور حکیمانہ ہُوا کرتا تھا۔ جیسے ایک صحابیؓ خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے سواری چاہیے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہیں اُونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔‘‘ وہ صاحب سمجھے کہ اونٹنی کے بچے سے مراد چھوٹا بچہ ہے، جو بہ ظاہر سواری کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے انھوں نے حیرانی سے عرض کیا کہ حضور ﷺ! میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا ؟ تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے!‘‘ (أبوداود)

اسی طرح ایک بوڑھی خاتون ایک مرتبہ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! دعا فرما دیجیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل فرما دے۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہ ہوگی۔‘‘ وہ پریشان ہوئیں اور گھبرا کر کہنے لگیں: ایسا کیوں؟ اس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم قرآنِ کریم میں یہ آیت نہیں پڑھتیں جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جنتی عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے، یعنی ہم نے ان کو کنواریاں بنایا۔‘‘ (مشکوۃ) مطلب یہ ہے کہ بوڑھی عورتیں (اور مرد) اپنے بڑھاپے کے وصف کے ساتھ جنت میں نہ جائیں گے، بلکہ اﷲ تعالیٰ ان کے بڑھاپے کو جوانی میں بدل کر جنت میں داخل فرمائیں گے۔

 ایسے ہی ایک مرتبہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کو بہ طور خوش طبعی فرمایا: ’’اے دوکان والے!‘‘ (أبوداود)

کبھی کبھی خوش طبعی، خوش مزاجی اور دل لگی و ہنسی مذاق کر لینا بھی انسانی فطرت ہونے کے علاوہ انسیت، مسرت اور محبت کا سبب ہے جو کہ مباح ہے بہ شرط یہ کہ شرعی حدود و قیود میں رہ کر ہو۔ البتہ اگر کوئی شخص شرعی حدود سے تجاوز کر جائے جس سے کسی کی دل آزاری یا ایذا رسانی ہو تو پھر یہ مذاق نہیں رہتا بلکہ تمسخر بن جاتا ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں۔ علمائے کرام نے کتاب اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے ہنسی مذاق کے مندرجہ ذیل شرعی آداب اور حدود و قیود بیان فرمائے ہیں:

مذاق کا مقصد اپنے ساتھی کو مانوس اور اس کے دل کو خوش کرنا ہو، اس کی تکلیف، تحقیر یا تذلیل مقصود نہ ہو، ورنہ یہ مذاق نہیں بلکہ تمسخر و استہزاء بن جائے گا۔

ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! نہ تو مرد مردوں کا مذاق و تمسخر اڑائیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ ہی عورتیں عورتوں کی ہنسی اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘ (الحجرات)

اسی طرح حدیث پاک میں وارد ہے، مفہوم: ’’اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اُڑاؤ، اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے تم پورا نہ کر سکو۔‘‘ (ترمذی)

قرآن و حدیث میں جس ہنسی مذاق کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ مذاق ہے جو کسی کی تحقیر و تکلیف کا سبب ہو۔

ہنسی مذاق حقیقت اور حق پر مبنی ہو۔ اگر باطل، جھوٹ یا گناہ پر مبنی ہو تو اس کی سخت ممانعت ہے۔

مفہوم: ’’اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث میں فرمایا، مفہوم: ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات اس طرح کہو کہ وہ تمہیں اس میں سچا سمجھ رہا ہو حال آں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ (أبو داود )

اﷲ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، شعائرِ اسلام یا دینی احکام کے متعلق مذاق کفر ہے۔ لہٰذا جو مذاق شرعی حدود میں ہو وہ بھی کبھی کبھار اور مناسب موقع پر ہونا چاہیے۔ ہر وقت قہقہہ لگانا یا ہر جگہ ہنسنا درست نہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی زیادہ ہنستا ہے اس کا رعب کم ہو جاتا ہے۔ (حیاۃ الصحابہؓ )

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’مزاح میں افراط اور مداومت ممنوع ہے۔‘‘ (احیاء العلوم)

لہٰذا اسلام میں اعتدال ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی زہد و تقویٰ کے ساتھ خوش طبعی کا بھی بہترین نمونہ ہیں۔ لہٰذا شرعی حدود میں رہ کر کیا گیا ہنسی مذاق، انسیت و مودت کا ذریعہ ہے۔

Similar Posts