عالمی عدالتِ انصاف امریکا و اسرائیل کے گھیرے میں

آپ کو شاید یاد ہو کہ گزشتہ برس چوبیس نومبر کو یہ دھماکا خیز خبر آئی کہ بین الاقوامی جرائم سے متعلق عالمی عدالت کے ایک چھ رکنی بنچ نے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے مطالبے پر حماس کے کمانڈر محمد دائف کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔اس کا مطلب یہ تھا کہ جن ریاستوں نے بین الاقوامی عدالت کا دائرہ کار تسلیم کر رکھا ہے ان پر لازم ہے کہ مطلوبہ اشتہاری ملزموں کو گرفتار کر کے دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جائے۔

آج اس وارنٹ کو جاری ہوئے تیرہ ماہ ہو گئے۔محمد دائف کو اسرائیل نے خود قتل کر دیا مگر نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ نہ صرف دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو تو عالمی عدالت کا قانونی دائرہ تسلیم کرنے والے کئی ممالک کی فضائی حدود سے متعدد بار گذر بھی چکے ہیں۔اسرائیل اور امریکا بین الاقوامی جرائم کی عدالت کا ہر طرح سے ناطقہ بند کرنے کی بھی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔

جن چھ ججوں نے یہ وارنٹ جاری کیے ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہے۔پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف اس برس اپریل اور پھر اگست میں دو خواتین کو سامنے لایا گیا جنھوں نے کریم خان پر جنسی ہراسگی کے الزامات عائد کیے۔اقوامِ متحدہ نے ان الزامات سے بریت تک کریم خان سے قانونی ذمے داریاں واپس لے لی ہیں۔ان میں سے ایک خاتون نے اعتراف کیا کہ اس نے بے پناہ دباؤ کے نتیجے میں کریم خان پر الزام لگایا اور پھر اپنا الزام واپس لے لیا جب کہ دوسری خاتون اپنے الزامات پر بدستور قائم ہے۔

لگ بھگ چار ماہ قبل ایک موقر برطانوی جریدے مڈل ایسٹ آئی نے اپنی تفصیلی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع پر باضابطہ فردِ جرم عائد ہونے سے چند ماہ قبل اپریل دو ہزار چوبیس میں برطانوی وزیرِ خارجہ اور سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پراسکیوٹر کریم خان کو نجی طور پر خبردار کیا کہ اسرائیلی رہنماؤں کو چارج شیٹ کیے جانے کی صورت میں برطانیہ بین الاقوامی عدالت کی رکنیت سے علیحدہ ہو جائے گا ( برطانیہ آج بھی عدالت کا رکن ہیں )۔

مئی دو ہزار چوبیس میں سینئیر ریپبلیکن امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے دھمکی دی کہ فردِ جرم عائد ہونے کے ردِ عمل میں امریکا عدالت کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گا۔کریم خان کو یہ پیغام بھی بجھوایا گیا کہ موساد ان کے پیچھے لگ گئی ہے اب وہ اپنی خیر منائیں۔

کریم خان پچیس مئی سے جبری چھٹی پر ہیں۔اس سے ایک ہفتہ قبل اسرائیلی قانونی پینل میں شامل ایک وکیل نکولس کافیمن نے کریم خان سے فردِ جرم پر گفتگو کے بہانے ملاقات میں کھلی دھمکی دی کہ اگر اسرائیلی وزیرِ اعظم اور سابق وزیرِ دفاع کے خلاف جنگی جرائم کا وارنٹ واپس نہ لیا گیا تو اسرائیلی تمہیں اور عدالت کو نہیں چھوڑیں گے۔

اسرائیل اور امریکا نے ان وارنٹس کی واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر اب تک کامیابی نہیں ہوئی۔گذرے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا جب کسی بین الاقوامی اشتہاری ( نیتن یاہو ) نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خالی کرسیوں سے خطاب کیا۔جب کہ جس رہنما ( فلسطینی صدر محمود عباس ) نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں شکایت دائر کی تھی اسے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی ویزہ نہیں ملا۔

فرانس سے تعلق رکھنے والے قانون دان نکولس گائلو بین الاقوامی جرائم کی عالمی عدالت کے ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنھوں نے نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے تھے۔ اگست میں ان ججوں اور کریم خان سمیت تین پراسیکیوٹرز پر امریکا نے تادیبی پابندیاں لگا دیں۔

چند ہفتے پہلے جج نکولس نے فرانسیسی اخبار لی موند سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان دنوں ایک طرح کے ڈجیٹل قیدی ہیں اور عملاً انٹرنیٹ سے پہلے کے دور میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ایمیزون ، ایر بی این بی اور پے پال جیسی امریکی کمپنیوں نے ان کا اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔وہ اپنے ہی ملک فرانس سمیت کسی ملک کے کسی ہوٹل میں آن لائن بکنگ نہیں کروا سکتے کیونکہ بکنگ کے بین الاقوامی کاروبار پر بھی امریکی کمپنیوں کا تسلط ہے۔

جج نکولس کے امریکن ایکسپریس ، ویزہ اور ماسٹر کریڈٹ کارڈز بلاک ہو چکے ہیں۔حتی کہ کسی غیر امریکی بینک میں بھی انھیں اپنا اکاؤنٹ آپریٹ کرنے میں دشواریاں ہے۔ وہ پابندیوں کے سبب نہ ڈالر بھیج سکتے ہیں نہ منگوا سکتے ہیں، نہ کوئی کرنسی ڈالر میں تبدیل کروا سکتے ہیں۔

جج نکولس سے روا سلوک ثابت کرتا ہے کہ نام نہاد آزاد ڈجیٹل دنیا کی شاہ رگ پر امریکا کا کتنا تگڑا ہاتھ ہے جس کے ذریعے آج کی دنیا کے کسی بھی ناپسندیدہ فرد کا کیسی آسانی سے معاشی گلا گھونٹا جا سکتا ہے۔

اگرچہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت ایسی امریکی کمپنیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے جو کسی یورپی شہری کے بنیادی حقوق سلب کرنے میں معاونت کریں۔ایسی کمپنیوں کو یورپ میں کاروبار کرنے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔مگر یورپی یونین میں امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ سے ایسا تنازعہ مول لینے کا فی الحال حوصلہ نہیں ہے۔

لیکن ایسا بھی اندھیر نہیں کہ جن انسانیت دشمن ملزموں تک بین الاقوامی انصاف کرنے والی عدالتوں کا ہاتھ نہ پہنچ سکے ان پر کوئی گرفت نہیں کر سکتا۔اسرائیلی بین الاقوامی عدالت کے وارنٹ سے پریشان ہوں نہ ہوں مگر بہت سے ممالک کے مقامی قوانین کی ممکنہ گرفت سے ضرور گھبرائے ہوئے ہیں۔ان قوانین اور عدالتوں کی مدد سے جنگی مجرموں کو جکڑنے کی انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں کی جانب سے کیا کیا کوششیں ہو رہی ہیں۔اس کا احوال اگلے مضمون میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Similar Posts