نیپال میں جین زی انقلاب کے نتیجے میں ایک سابق ’ریپر‘ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔
نیپال میں مارچ 2026 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل دو مقبول سیاسی رہنماؤں نے اتحاد قائم کر لیا ہے، جسے ملک کی سیاست پر گزشتہ تین دہائیوں سے حاوی پرانی جماعتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔ پارٹی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں نے پیر کو اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ریپر سے سیاستدان بننے والے اور کٹھمنڈو کے میئر بالیندر شاہ، جو بالین کے نام سے مشہور ہیں اتوار کو راشٹریہ سواتنترا پارٹی (آر ایس پی) میں شامل ہو گئے۔
آر ایس پی کی قیادت سابق ٹی وی میزبان سے سیاستدان بننے والے راوی لامی چھانے کر رہے ہیں۔ پارٹی حکام کے مطابق یہ اتحاد آئندہ انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
معاہدے کے تحت اگر 5 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں آر ایس پی کامیاب ہو جاتی ہے تو 35 سالہ بالین شاہ وزیر اعظم مقرر ہوں گے، جبکہ 48 سالہ راوی لامی چھانے پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ہی اپنی ذمہ داریاں برقرار رکھیں گے۔
دونوں رہنماؤں نے ستمبر میں ہونے والے نوجوانوں کی قیادت میں شروع ہونے والے جن زی احتجاجی مظاہروں کے دوران اٹھائے گئے مطالبات کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ کار بپن ادھیکاری نے اس اتحاد کو آر ایس پی کی جانب سے ایک نہایت دانشمندانہ اور اسٹریٹجک قدم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس پی نے بالیندر شاہ اور ان کے نوجوان حامیوں کو اپنے ساتھ ملا کر مضبوط سیاسی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق روایتی سیاسی جماعتیں نوجوان ووٹروں کے آر ایس پی کی جانب جھکاؤ کے خدشے کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
نیپال کے الیکشن کمیشن کے مطابق نیپال کی 30 ملین آبادی میں سے تقریباً 19 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ستمبر کے احتجاج کے بعد تقریباً 10 لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا، جن میں اکثریت نوجوانوں کی شامل ہے۔
بالین شاہ ستمبر کے احتجاج کے بعد نمایاں طور پر منظرِ عام پر آئے اور نوجوان مظاہرین کے غیر اعلانیہ رہنما سمجھے جاتے رہے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کی سربراہی میں قائم ہونے والی عبوری حکومت کی تشکیل میں بھی کردار ادا کیا، جو انتخابات کی نگرانی کرے گی۔
تاہم بعض ناقدین نے احتجاج کے دوران بالین کے کردار پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ شاذ و نادر ہی عوام کے سامنے آئے اور زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے رہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ’یونیفائڈ مارکسسٹ لیننسٹ‘ اور اعتدال پسند نیپالی کانگریس پارٹی باری باری اقتدار میں شریک رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اِن جماعتوں کو اس بار بالین شاہ کی قیادت میں ابھرتی سیاسی قوت سے سخت مقابلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر میں نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف جین زی کے پُرتشدد احتجاج کے بعد نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت کی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود احتجاج جاری رہنے پر کئی وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر حکومت سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔ جین زی احتجاج میں 77 افراد ہلاک ہوئے تھے۔