سوال یہ ہے کہ یہ اصول اور ضابطے کس اصول پر قائم کیے جائیں، چنانچہ دنیا میں دو قسم کے گروہ ہیں، ایک وہ جو موحد ہیں، ایسے لوگ اپنے زندگی کے اصول بنانے کے لیے مذاہب نے جو ہدایات دی ہیں، اس کو اصول کے طور پہ اپناتے ہیں اور زندگی کا نظم و ضبط اسی حوالے سے ترتیب دیتے ہیں۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان وغیرہ سب اپنی مذہبی تعلیمات سے روشنی لے کر زندگی گزار نے کے اصول و ضابطے بناتے ہیں۔ مثلاً اگر مسلمان ہے تو وہ بچے کی دنیا میں آنے پرکان میں اذان دے گا، جوان ہونے پر نکاح کا اہتمام کرے گا اور انتقال ہونے پر نماز جنازہ کا اہتمام کرے گا۔
اور اگر ملحد ہے تو بھی اسے ان معاملات پر اصول تو بنانا ہوگا۔ مثلاً اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کے جسم کا کیا کرے گا؟ آگ لگا دے گا، مٹی میں دفنا دے گا یا دریا میں پھینک دے گا؟ آ خر کوئی تو اصول قائم کرنا پڑے گا۔
یوں جو ملحد ہیں تو پھر وہ اپنی عقل کے مطابق اس قسم کے زندگی گزارنے کے تمام معاملات میں اصول اور قوانین خود سے بنا لیتے ہیں۔ کس طرح یہ فیصلہ کریں کہ کون درست ہے؟ اس کے لیے دیکھنا ہوگا کہ کس کا قانون اور نظم و ضبط زندگی کے لیے اچھا اور درست ہے؟ اس کے لیے ہمیں پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان نظریات پر جب عملی طور پہ معاشرے نے عمل کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟جس نظریے کا عملاً معاشرے میں سب سے اچھا نتیجہ نکلا ہوگا وہ معاشرہ سب سے اچھا ہوگا اور یقیناً وہ نظریہ بھی درست اور بہترین ہوگا، چاہے وہ نظریہ خدا پر یقین والا ہو یا انکار کرنے والا ہو۔
دہلی میں جو مناظرہ ہوا، اس میں مفتی صاحب اسلامی نظریہ حیات کی حمایت کر رہے تھے تو ہمیں تاریخی طور پر دیکھنا ہوگا کہ جب اس نظریے کا مکمل طور پر معاشرے پہ اطلاق ہوا تو وہ معاشرہ کیسا تھا، اس کی کیا خوبیاں تھی اورکیا خامیاں تھیں۔ اسی طرح دوسری طرف ہم دیکھیں کہ جو لوگ خود زندگی کے اصول مرتب کرنے کے حامی ہیں، وہ جب کسی ریاست میں اپنے نظریے کا اطلاق کر رہے ہیں تو وہاں کیا نتائج ہیں، وہاں کا معاشرہ کس حد تک پرامن، اچھا اور سب کے لیے قابل قبول ہے؟
چنانچہ اس ضمن میں جب ہم دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ پوری انسانی تاریخ میں سب سے سنہری دورکا حامل ہے کہ جہاں عدالتوں میں لڑائی جھگڑے کے بھی کیس کم سے کم آتے تھے، جہاں غیر مسلم بھی سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ اسلامی تاریخ کا اولین دور دیکھیں تو اس میں جنگوں میں بھی مخالفین کے قتل کی تعداد انتہائی کم ترین ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی انقلاب کے بعد مخالفین کو بجائے قتل کرنے کے اور ان سے بدلہ لینے کے انھیں معاف کردیا گیا اور مکمل تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں مذہب مخالف نظریات رکھنے والوں کی جنگیں دیکھیں تو مخالفین کا قتل عام لاکھوں اورکروڑوں تک دکھائی دیتا ہے۔
اب دوسری طرف ہم آج کی ان تمام ریاستوں کا معاملہ دیکھ سکتے ہیں کہ جو غیر مذہبی اصول پہ اپنے معاملات چلا رہی ہیں، وہ کس قدر اپنی اقلیتوں اور مخالف نظریات رکھنے والوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ اسی طرح معاشرتی زندگی کا بھی جائزہ لیں تو بہت بڑا فرق نظر آئے گا خصوصاً خواتین اور والدین کے حوالے سے۔ صنف نازک کے ساتھ ناروا سلوک کے اعداد و شمار خوفناک حد تک ہیں۔ والدین اور بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے کو تیار نہیں، حکومتیں ان افراد کے لیے باقاعدہ وزارتیں قائم کر رہی ہیں تاکہ ان کی تنہائیوں کے مسائل سے نمٹا جا سکے، کہیں قانون کے ذریعے اولادوں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ کم ازکم مہینے میں ایک بار ہی والدین سے ملاقات کرلیں۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار مسائل ہمارے سامنے ہیں جب کہ اسلامی سنہری دور میں اس قسم کے معاشرتی مسائل دور تک نہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے عقائد پر چلنے کی پوری آزادی تھی۔
مختصر یہ کہ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ کونسا نظریہ درست ہے تو مناظر کے علاوہ ہم اس طرح بھی جائزہ لے سکتے ہیں کہ جب اسلامی نظریہ پرکسی معاشرے یا ریاست میں عمل کیا جائے تو آوٹ پٹ کیا ہوتی ہے؟ (اس کے لیے مثال آپﷺ کے دور کی سامنے ہے) اور اگر ملحدانہ نظریات پر عمل کیا جائے تو کیا آوٹ پٹ ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں موجودہ دورکی سیکولر ریاستیں اور ان کا معاشرہ ہمارے سامنے ہے۔