عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت نے نہ صرف عام کتب خانوں اور بک شاپس کے لیے ممنوعہ کتابوں کی فہرستیں جاری کیں بلکہ جامعات کے نصاب کو بھی ازسرِ نو ترتیب دیتے ہوئے درجنوں مضامین اور سینکڑوں نصابی کتب ختم کر دیں۔
میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2024 میں لائبریریوں اور کتاب فروشوں کو 400 سے زائد کتابیں ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔
جس کے بعد جنوری 2024 میں صرف کابل میں ہی پچاس ہزار سے زائد کتابیں ضبط کی گئیں۔ اس کے بعد جولائی 2025 میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جسے جامعات کے نصاب اور درسی کتب کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس کمیٹی نے ستمبر 2025 میں 679 نصابی کتب پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور 18 یونیورسٹی مضامین مکمل طور پر ختم کر دیے، جبکہ 200 سے زائد مضامین کو محدود یا مشروط قرار دیا گیا۔
ممنوع قرار دیے گئے مضامین میں انسانی حقوق، جمہوریت، آئینِ افغانستان، سیاسی نظام، انتخابی نظام، صنفی مطالعہ، خواتین سے متعلق سماجیات، اخلاقی فلسفہ، تاریخِ مذاہب اور عالمی سیاست جیسے موضوعات شامل ہیں۔
ان میں سے کئی مضامین کا تعلق براہِ راست خواتین یا جدید سماجی و سیاسی تصورات سے ہے۔ طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ یہ مضامین شریعت اور اسلامی امارت کی پالیسیوں سے متصادم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پابندی کا شکار ہونے والی کتب میں بڑی تعداد ایرانی مصنفین اور خواتین مصنفات کی ہے۔ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تحریر کردہ کسی بھی کتاب کو پڑھانے پر عملاً مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اسی طرح ایرانی مصنفین کی کتب پر بھی یہ کہہ کر پابندی لگائی گئی ہے کہ افغان نصاب میں ایرانی اثر و رسوخ کو روکا جائے حالانکہ فارسی زبان کے ذریعے صدیوں سے علمی مواد افغانستان تک پہنچتا رہا ہے۔
عام کتابی منڈی کے لیے جاری فہرست میں افغانستان کی حالیہ تاریخ، طالبان کے مخالف سیاسی و عسکری رہنماؤں، شیعہ برادری، خواتین کے حقوق، علاقائی سیاست اور خود طالبان تحریک سے متعلق تحقیقی کتب شامل ہیں۔
کئی معروف افغان اور غیر ملکی محققین کی تحریریں بھی ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ طالبان کے نزدیک ان کتب کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہ ملکی مفاد، اسلامی عقائد یا ثقافتی اقدار کے خلاف ہیں۔
مذہبی موضوعات پر بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ شیعہ فکر، صوفی ازم، اسلامی فلسفہ، اور یہاں تک کہ بعض کلاسیکی اسلامی تصانیف بھی پابندی کی زد میں آئی ہیں۔
اس کے علاوہ عیسائیت، فلسفہ، مارکسزم اور مغربی سیاسی و سماجی نظریات سے متعلق کتب بھی ممنوع فہرست میں شامل ہیں۔ خواتین کی حالت، فیمینزم اور خود نوشتوں پر مبنی کئی عالمی شہرت یافتہ کتابیں بھی ہٹا دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف فہرستوں تک محدود نہیں رہیں۔ بک شاپ مالکان اور ناشرین کے مطابق بعض سرکاری اہلکار اپنی صوابدید پر بھی کتابیں ضبط کر لیتے ہیں، چاہے وہ فہرست میں شامل ہوں یا نہیں۔
نئے کتب کی اشاعت کے لیے بھی حکومت سے پیشگی اجازت لینا لازم قرار دیا گیا ہے، جس سے اشاعتی عمل مزید مشکل ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان حکومت کتابوں اور نصاب پر پابندیوں کو مغربی اثرات کے خلاف ایک طویل المدتی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
ان کے نزدیک جدید تعلیم، تنقیدی سوچ اور خواتین کی شمولیت ایک بیرونی ایجنڈا ہے جو افغان معاشرے اور اسلامی شناخت کو کمزور کرتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت مستقبل کی نسلوں کو صرف وہی علم فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو طالبان کے عقائد اور نظریات سے ہم آہنگ ہو۔