بھارت میں اسلام دشمنی کہاں پہنچ گئی- ششی تھرور کی زبانی تین کہانیاں

0 minutes, 0 seconds Read

معروف بھارتی صحافی اور سیاستدان ششی تھرور نے اپنے مضمون میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بڑھتی ہوئی فضا کو تین عام مگر پراثر واقعات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ ان واقعات نے معاشرے میں گہری ہوتی ہوئی تقسیم کو واضح کر دیا ہے۔

ایک لبنانی خاتون کے ساتھ سلوک میں بدلاؤ

ششی تھرور لکھتے ہیں کہ وہ حال ہی میں جے پور میں ایک سنہری بالوں والی لبنانی خاتون سے ملے، جو پچھلے 15 سال سے بھارت آتی رہی ہیں تاکہ دستکاری اور زیورات کے کاروبار میں حصہ لے سکیں۔
خاتون کا نام ”نور“ ہے، جو عربی میں ”روشنی“ کے معنی رکھتا ہے۔ پہلے جب وہ اپنا نام بتاتیں تو بھارتی لوگ خوشی سے کہتے، ”واہ، کتنا خوبصورت نام ہے! ہمارے یہاں بھی یہ نام ہے!“ مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔
اب جب وہ اپنا نام ”نور“ بتاتی ہیں، تو پہلا سوال ہوتا ہے: ”اوہ، آپ مسلمان ہیں؟“
تھرور لکھتے ہیں کہ سوال کا انداز اور لہجہ سب کچھ کہہ دیتا ہے۔ اب وہ خاتون اس بات سے غیر یقینی ہو گئی ہیں کہ کیا وہ دوبارہ بھارت آئیں گی یا نہیں۔

ایک افغان سرجن کے بچوں کو ”مسلمان“ ہونے کی سزا

دوسری کہانی ایک سابق بھارتی سفیر سے متعلق ہے، جو اپنے کیریئر میں پاکستان اور اسلامی شدت پسندی کے خلاف سخت موقف رکھنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے ایک معروف افغان سرجن کو مشورہ دیا تھا کہ طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بچنے کے لیے اپنی بیوی اور بچوں کو بھارت بھیج دیں۔
یہ خاندان گڑگاؤں میں آباد ہوا، بچوں کو ایک اچھے اسکول میں داخلہ دلایا، مگر ایک سال کے اندر ہی حقیقت سامنے آ گئی۔
پڑوسی بچوں نے ان کے بچوں سے صاف کہہ دیا: ”ہمارے والدین نے کہا ہے ہم تمہارے ساتھ نہیں کھیلیں گے کیونکہ تم مسلمان ہو۔“
سفیر نے افسوس اور شرمندگی کے ساتھ سرجن کو مشورہ دیا: ”اپنے بچوں کو دبئی یا لندن لے جاؤ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں بھارت آنے کا مشورہ دیا۔“

اقوام متحدہ کے بھارتی اہلکار کو عرب شدت پسند کی دھمکی

تیسری کہانی ایک بھارتی اقوام متحدہ کے اہلکار سے متعلق ہے، جو مشرق وسطیٰ کے کئی علاقوں میں امن مذاکرات کا حصہ رہ چکے تھے۔ ایک عرب ملک میں ایک شدت پسند سے ملاقات کے دوران، ابتدا میں ماحول خوشگوار تھا۔ شدت پسند نے رمضان کے مہینے میں بھی سگریٹ پیش کیا اور خوش مزاجی سے گفتگو کی۔
مگر جیسے ہی UN اہلکار نے بتایا کہ وہ بھارت سے ہے، شدت پسند کا لہجہ بدل گیا۔
اس نے غصے سے کہا: ”میں نے سنا ہے تم لوگ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو۔ نکل جاؤ یہاں سے، ورنہ میں ذمہ دار نہیں ہوں گا!“
یورپی ساتھی نے بھی وضاحت دینے کی کوشش کی، مگر شدت پسند کا کہنا تھا کہ وہ دنیا بھر کے میڈیا کو پڑھتا ہے، اور وہ خود دیکھ چکا ہے کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ ملاقات ختم ہو گئی، اور بھارتی اہلکار بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلا۔

نفرت کی بڑھتی ہوئی خلیج

تھرور تسلیم کرتے ہیں کہ صرف انفرادی واقعات سے مکمل تجزیہ ممکن نہیں، لیکن ان تین بظاہر غیر متعلقہ کہانیوں نے ایک ہی پیغام دیا: بھارت میں مذہبی بنیاد پر خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ واقعات محض اتفاق نہیں، بلکہ موجودہ فضا کی علامت ہیں، جو بھارتی سماج کو زہر آلود کرتی جا رہی ہے۔

Similar Posts