سینیٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ جب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ فیصلے دے چکی ہے اور پھرایکنک نے بھی اس کی منظوری نہیں دی تھی تو پھر کینال کا کام کیوں شروع کر رہے تھے؟ کیا پنجاب حکومت کسی دوسرے ملک سے آئی ہے یا قانون سے بالاتر ہے؟ صحافی ذوالفقار مہتو نے کہا کہ ارسا ایکٹ میں تو کوئی ترمیم ہی نہیں ہوئی جس کے تحت چوتھا اور پانچواں ممبر جو سندھ سے آنا ہے تو اس پر پیپلز پارٹی کیسے کہہ رہی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام دس میں میزبان عمران سلطان سے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور سینیٹر ضمیر گمھرو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واٹر ریسورس کی منظوری کا ایک طریقہ کار ہے وہ ارسا ایکٹ میں لکھا ہوا ہے اور ارسا پانی کو ریگولیٹ کرتا ہے، 25 جنویری 2024 کو پنجاب کی نگران حکومت کی ایک اسکیم آئی اور ارسا نے چار ایک سے منظوری دی، سندھ حکومت اقتدار میں آئی تو انھوں اپنے اعتراضات جمع کرائے۔
انھوں نے گفتگو میں کہا کہ ارسا کی میٹنگ ہوئی تھی وہ بھی غیر قانونی تھی کیوں کہ نگراں حکومت کو کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔ ارسا میں دو ممبر سندھ کے ایک فیڈرل ممبر ہے وہ بھی سندھ سے ہونا ہے اس پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ فیصلے دے چکی ہے اور پھر ایکنک نے بھی اس کی منظوری نہیں دی تھی تو پھر کینال کا کام کیوں شروع کر رہے تھے؟ کیا پنجاب حکومت کسی دوسرے ملک سے آئی ہے یا قانون سے بالاتر ہے؟
تحقیقاتی صحافی ذوالفقار علی مہتو نے گفتگو میں کہا کہ پیپلز پارٹی ایک بڑی جماعت ہے اوراس کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرف کے ایل ایف او پر عمل درآمد کرانا ہےٓ، جنرل مشرف نے 2002 میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ شاید کالا باغ ڈیم پر سندھ راضی ہو جائے گا تو انھوں نے کہا کہ اگر اس شرط پر بھی راضی ہوتے ہیں تو سندھ سے دو ممبر رکھ لیتے ہیں، اب آپ بتائیں کہ ملک کے چار صوبے ہوں ایک صوبے کے دو ممبر ہوں تو اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے تھی۔
انھوں نے کہا کہ جب مشرف کا ایل ایف او آیا تو اس میں دو ممبر شامل کر دیے گئے۔ 17ہویں ترمیم میں کچھ ترامیم کرائیں کہ جنرل پرویز مشرف وردی میں صدر پاکستان رہیں گے اور وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی لے سکیں گے وردی کے اندر۔ ارسا ایکٹ میں تو کوئی ترمیم ہی نہیں ہوئی جس کے تحت چوتھا اور پانچواں ممبر جو سندھ سے آنا ہے تو اس پر پیپلز پارٹی کیسے کہہ رہی ہے۔
ذوالفقار مہتو نے کہا کہ انھیں یاد ہوگا کہ سترہویں ترمیم کے بعد ان کی پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ بنائی گئی اور جنرل مشرف نے پیپلز پارٹی کے کمر میں خنجر گھونپ کر ترمیم کرائی لیکن اس ایک ایکٹ میں ارسا ترمیم شامل نہیں ہے۔ یہ دعوی ہی بے بنیاد کہ پانچواں ممبر سندھ کا ہوگا۔
سینیٹرضمیر گھمرو نے کہا کہ سندھ میں جام صادق کی حکومت مسلط کرکے پیپلز پارٹی کا میڈیٹ ختم کر کے ارسا ایکٹ کیا گیا تھا اس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے مخالفت کی تھی، آپ اگر مشرف کے آرڈر کی بات کر رہے ہیں تو آپ 91 کی بھی بات کریں کہ وہ کیسے مسلط کیا گیا تھا، جام صادق سے کیسے آئین پاس کرایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سندھ کا پانی آدھا ہے۔ پہلے جو ڈیجیٹل میٹنگ ہوتی تھی پنجاب اور سندھ اس کے برابر اسٹیک ہولڈر ہوتے تھے، مشرف نے جو نوٹیفکیشن نکالے تھے وہ آئین کے آرٹکیل 270 اے اے میں سارے پروٹیکٹیڈ ہیں، وفاقی حکومت سپریم کورٹ گئی تھی اور 2021 میں اس کی اپیل خارج ہو گئی تو یہ لا ڈکلیئرڈ ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس پر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے اس کے خلاف اپیل گئی ہے اور یہ کلیئر ہے کہ ارسا کا فیڈرل ممبر سندھ سے ہوگا ابھی اس کی کمپوزیشن غیر قانونی ہے، نگراں حکومت کے دور میں ارسا سے سرٹفکیٹ لیتے ہیں جس سے لوئر ریپرینگ متاثر ہوتا ہے، میں اگر پانی کی اسکیم یہاں بناؤں تو آپ متاثر نہیں ہوں گے، اس وجہ سے ہمارا پانی زیادہ تھا تو ارسا نے ہمیں یہ حق دیا تھا کہ ہمارے دو ممبر ہوں گے کیوں کہ ہمارا پانی ارسا میں زیادہ ہے اور ووٹگ کی پاور کم ہے۔
ضمیر گھمرو نے کہا کہ 2014 میں غلام عباس لغاری کو سندھ حکومت نے منتخب کیا تھا بہ طور ممبر ارسا اس کو وفاقی حکومت نے مقرر نہیں کیا تھا اس کے خلاف میں گیا تھا ہائیکورٹ میں پٹیشن لے کر کہ یہ وفاق کا عمل غیر قانونی ہے اس پرعدالت نے فیصلہ دیا۔ یہ تو اب عدالت کا فیصلہ ہے تو ارسا کیسے فیصلہ کر سکتی اس کی واٹر اسکیم کا۔
صحافی ذوالفقار مہتو نے کہا کہ سترہویں ترمیم کے تحت ساری کور مل جاتی ہے تو صدر زرداری اٹھارہویں ترمیم کیوں لائے کیا ضرورت تھی؟ کیوں آپ نے سی سی آئی میں تبدیلیاں کیں؟ کیوں آپ نے یہ کہا کہ صدر کے اختیارات ہم واپس کرتے ہیں رہنے دیا جاتا ایل ایف کے تحت، اس ترمیم میں ارسا کو تو رہنے دیا گیا اور صدر کے اختیارات پر آصف زرداری نے واپس لے لیے۔
انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ کبھی ایسا بھی ہوا، عدالت میں تو سندھ حکومت کو جانا چاہیے تھا وہاں تو پرائیویٹ شہری گیا تھا۔ ارسا کو سیاست سے پاک ہونا چاہیے اور جو جام صادق کے دستخط اور 91 کی کاڈ پر کہا جائے کہ نہیں مانتے، یہ صرف باتیں ہیں اور ایک ایشو بنانے کے لیے کافی ہیں۔
ذوالفقار مہتو نے کہا کہ فیک نیوز نے پاکستان کی فئیڈریشن کو بہت نقصان پہنچایا ہے، جھوٹ نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ اب ہمیں اس دکان کو بند کر کے آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کا دروازہ کھولنا پڑے گا اور اس میں صرف حکومتیں نہیں سندھ، بلوچستان کے پی اورپنجاب کے کسان بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ صوبوں کو کتنا پانی ضروت ہے کس طرح بانٹا جائے گا۔
اس حوالے سے سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ کسانوں کو کیوں بٹھایا جائے، میں نے بتا دیا کہ عدالت نے 2017 میں ڈکلیئر کیا ہوا ہے اس کے خلاف وفاق سپریم کورٹ گئی اس کی اپیل خارج کر دی گئی اس سے بڑا تو کوئی لا نہیں ہو سکتا، عدالت کی ججمنٹ کو نہیں مانیں گے توکس کو مانیں گے، پیپلز پارٹی سی سی آئی میں گئی ہے۔