ایران کے مغربی صوبے سیستان و بلوچستان میں آٹھ پاکستانی مزدوروں کے بہیمانہ قتل کے واقعے میں احمد پور شرقیہ سے تعلق رکھنے والے محمد جمشید بھی شامل ہیں۔ محمد جمشید کے جاں بحق ہونے کی اطلاع جب اُن کے آبائی علاقے میں پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا، والدہ غم سے نڈھال ہو گئیں جبکہ بھائی اور دیگر اہلخانہ بھی شدتِ صدمہ سے بےحال ہیں۔
جمشید کے بھائی نے بتایا کہ وہ گھر کا واحد کفیل تھا اور ڈیڑھ سال بعد وطن واپس آنے والا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بھائی نے بوڑھی ماں، بیوی اور چھوٹے بچوں کا سہارا بن کر زندگی گزاری، لیکن ظالموں نے اُسے بے رحمی سے مار ڈالا۔‘
مرحوم کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا، ’میرا غریب بیٹا چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر گیا ہے، وہ ہمیں سہارا دینے گیا تھا، لیکن کفن میں لپٹ کر لوٹے گا۔‘
ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان
اہلخانہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جمشید سمیت تمام مقتولین کی لاشیں جلد از جلد وطن واپس لائی جائیں تاکہ ان کی تدفین کا عمل مکمل ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاخیر سے اہلِ خانہ کا غم مزید بڑھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ مہرستان کے نواحی گاؤں ہیزآباد پایین میں پیش آیا، جہاں نامعلوم مسلح افراد نے ایک آٹو ورکشاپ پر دھاوا بول کر آٹھ پاکستانی مزدوروں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ایرانی حکام نے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ پاکستان نے لاشوں کی واپسی کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق، لاشوں کی واپسی میں آٹھ سے دس دن لگ سکتے ہیں کیونکہ جائے وقوعہ دور دراز علاقہ ہے اور فارنزک تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ایرانی حکام نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی سفارتخانے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔