بلوچستان کی ترقی ضروری، مگر فاٹا کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، تیمور جھگڑا

0 minutes, 0 seconds Read

رہنما پی ٹی آئی تیمور جھگڑا کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ترقی ضروری، مگر فاٹا کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،
بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی ہے، کسی کو یقین نہیں کہ پیسے بلوچستان جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر قیصر شیخ نے کہا کہ 78 سالہ تاریخ ہے مجھے بتایا جائے کہ کس صوبے نے براہ راست کسی منصوبے میں کوئی کامیابی حاصل کی۔ مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ وفاق کو صوبوں میں شاہراہیں بنانے یا دوسرے ترقیاتی منصوبوں کی مجاز ہے۔

تیمور جھگڑا، سابق صوبائی وزیر خزانہ

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اورحکومت کی پیٹرولیم لیوی بڑھانے اور وفاقی حکومت صوبوں کے وسائل کے حوالے سے یک طرفہ فیصلے قانونی طور پر لے سکتی ہے یا نہیں، اس حوالے سے آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی و سابق صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے کہا کہ اس پر ایک نہیں 4، 5 بڑے بنیادی اعتراضات ہیں، سب سے پہلے تو یہ کہ اگر بیس فیصد بھی یہ کہتے ہیں کہ قیمتیں کم ہوئیں ہیں، جیسے 260 روہپے کی قیمت ہے تو بیس فیصد کا مطلب ہے کہ آپ کو 50 روپے کی سیونگ ہوئی ہے۔

تیمور جھگڑا نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ اگر یہ کوشش ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل پر کچھ پیسے ڈال کر ان کو حل کیا ہے تو مینگل صاحب کی احتجاجی موومنٹ ہے وہ حل نہیں ہوتی، بلوچستان کے سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہے، کسی کو یقین نہیں کہ پیسے بلوچستان جا رہے ہیں، اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ 15 دن میں 100 ارب سیو ہو رہے ہیں تو سب سے پہلے جو ایڈیشنل ٹیکس کا نام ہے اس کا نام بلوچستان لیوی ہونا چاہیے۔ اوریہ بات قونی طور پر محفوظ ہو کہ اس کا پیسا بلوچستان جا رہا ہے۔

رہنما پی ٹی آئی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج بھی وفاق قبائیلی اضلاع کے بنیادی اخراجات کی آئینی ذمےداری پوری نہیں کر رہا۔ پیسے وفاق کو ملتے ہیں تو چاروں صوبوں کا حق ہے، صوبوں سے پیسوں سے متعلق پوچھا جانا چاہئے، بلوچستان کےاہمیت سےانکارنہیں، فاٹا بھی اہم ہے، حکومتی رویے نے منرلز بل کا بھی بیڑاغرق کر دیا۔ پی ٹی آئی میں ون مین شو نہیں ہے، وفاق کی جانب سے منرلز سے متعلق ڈرافٹ آیا تھا۔

تیمورجھگڑا نے کہا کہ پچھلے تین سال میں البیک کا ایک ایم او یو ہوا ہے سو ارب ڈالر کا۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ ادارہ ہی اسی لیے بنا ہے، رابطے کے لیے چاروں صوبوں کا ایک فورم کیوں نہیں بنا دیتے، گریڈ انیس کا جو ملازم ڈی جی مائنز اینڈ منرل ہوگا، وفاق کا ہوگا۔ وہ وزیراعلٰی، صوبائی کابینہ یا پارلیمنٹ کو کنکشن دے گا؟ ہماری بنیاد ہے ڈیموکریسی۔

پارٹی اختلافات پر انھوں نے کہا کہ ہم نے شیر افضل مروت کے خلاف جانے کا دعوی بھی کیا، مجھے اکاؤنٹبلٹی کے سوالات بھیجے گئے جو پبلک کیے ، ہماری پارٹی میں جو اختلافات ہیں اور جو لیک آف پراسسز ہے پارٹی ہیں، ہمیں تو جان بوجھ کر عمران خان تک رسائی نہیں دی جا رہی، ان کی بہنوں علیمہ خان کو ملنے نہیں دیا جا رہا تاکہ پارٹی آپس میں لڑ سکے، مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے عمران خان کو ڈکلیئر کیا جائے گا اس پر بہت شکوک و شبہات ہیں، وفاقی حکومت پاکستان کے مائنز اینڈ منرلز کے ریسورسز دنیا کو دے رہی ہے۔

قیصر احمد شیخ، وفاقی وزیر

وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ نے بھی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایک ڈیڑھ ماہ میں 15 سے 20 فیصد پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، ہماری پیٹرولیم لیوی کی 70 روپے تک گنجائش تھی، جس طرح علی پرویز نے تفصیل سے بتایا کہ خطے میں ابھی بھی تمام ملکوں سے ہماری قیمتیں کم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے سب صوبوں کو ایک ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ترقی کرنی ہے، بلوچستان بہت بڑا صوبہ ہے اور ذخائر سے مالا مال ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ 15 ارب دن میں 100 ارب روپے کا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

قیصر شیخ نے کہا کہ کے پی کے کی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی بھرپوراکثریت ہے، کابینہ نے اس کو منظور کیا ہے اس پر بحث ہو رہی ہے، میں پورٹ آف انویسٹمنٹ کا وزیر ہوں، ہمیں انٹرنیشنل گارنٹی دینی ہوتی ہے اور معاہدے ملکوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے، کچھ بھی نہ کیا جائے ، 78 سالہ تاریخ ہے مجھے بتایا جائے کہ کس صوبے نے براہ راست کسی منصوبے میں کوئی کامیابی حاصل کی ، ان کے لوکل معاملات پر ہم مداخلت نہیں کر رہے، یہ انھیں کے مفاد کے لیے ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ابھی تو یہ اسمبلی میں اس پر بحث ہونی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ریجیکٹ ہوگا کیوں کہ اور کوئی آپشن نہیں ہے، ساری چیزیں مل جل کرہی ہوتی ہیں ، ملک کو آگے بڑھانا ہے، حکومت کی صوبوں سے لازمی بات ہوئی ہوگی۔ ہر معاملے میں مشورہ یا ڈائریکشن تو ہوتئ ہے، کوئی فائل تو نہیں ہے، یہ تو پراسس کا حصہ ہے۔

قیصر شیخ نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث کے دوران کسی کے سوالات ہوں گے اس کا جواب دیا جائے گا، کوئی ایسی مثال تو دیں کہ آج تک کسی صوبے نے ڈائریکٹ کوئی بڑا انویسٹمنٹ کا پلان کر لیا ہو۔ یہ سب وفاق کے لیے بھی اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جب تک ہم ساتھ نہیں، ریکوڈک کی مثال تو سامنے آ گئی، 50 فیصد اگر بیرک گولڈ کا حصہ ہے تو اس میں 25 فیصد بلوچستان کا حصہ رکھا گیا ہے اور باقی وفاق کا حصہ رکھا گیا ہے، تبھی یہ معاملہ آگے بڑھا۔

مرزا اختیار بیگ، ممبر قومی اسمبلی

آج نیوز کے پروگرام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ تمام ماضی کی اور موجودہ حکومت کی یہ بھی پالیسی تھی کہ جب بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی اس کا صارفین کو فائدہ دیا جائے گا اور عالمی مارکیٹ مں قمیتیں بڑھیں گی تو اس کی قیمت بڑھائی جائے گی، یہ وہ پریکٹس ہے جو چل رہی تھی، اب ایک یہ نئی چیز سننے میں آئی ہے کہ پی ڈی ایل، عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوئی ہیں۔

مرزا اختیاربیگ نے کہا کہ اس کا فائدہ ہم پاس آن نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اگر ہم سو ارب کماتے ہیں تو اسے بلوچستان کی تعمیر اور ترقی میں استعمال کریں گے، ایک جیب سے نکال کر دوسری جیب میں ڈالا جائے گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں بلوچستان میں ناانصافی ہوئی ہے، وہاں سڑکیں شاہراہیں بنانے کی ضرورت ہے یا دوسرے ترقیاتی منصوبوں کی تو حکومت اس کی مجاز ہے، پاور ہے اس کے پاس۔

انھوں نے کہا کہ کے پی ایس ڈی پی میں فنڈ جتنا چاہے صوبوں کے لیے مختص کر دے اور استعمال کر سکے، یہ جو پی ڈی ایل ہے اس کی آپ کو اکاؤنٹبلیٹی نہیں ملے گی، آئی ایم ایف کی کنڈیشن تھی، انھوں نے سلیب دیے تھے جس کے تحت پی ڈی ایل میں اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک وہ پورا نہیں ہوا۔

مرزا اختیار بیگ نے مزید گفتگو میں کہا کہ ریکوڈک کے معاملے پر صوبائی حکومت اسے عدالت لے گئی تھی، سپریم کورٹ میں رضا مندی مانگی گئی جب اپنا کیس واپس لیا اور نئے سرمائے کا وعدہ کیا اورابھی منرل پالیسی میں وہ پاکستان کے حق مں کہہ کر گئے ہیں بیرک گولڈ والے، چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے جب آپ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کر رہے ہیں تو یہ سب مرکز سے ہوگا، چیزوں کو بیلنس کرنا ہوتا ہے وہ صوبے سے نہیں ہوتیں وہ وفاق سے ہوتی ہیں۔

Similar Posts