یروشلم میں ایسٹر کے موقع پر جلائی جانے والی میسیحیوں کی ’مقدس آگ‘ کیا ہے

0 minutes, 0 seconds Read

مسیحیوں کے تہوار ”ایسٹر“ سے قبل ہفتے کے روز ہزاروں مسیحی یروشلم کے قدیمی گرجا گھر ”چرچ آف دی ہولی سیپلچر“ میں صدیوں پرانی روحانی تقریب ”مقدس آگ“ میں شریک ہوئے۔ یہ تقریب ہر سال اس جگہ پر منعقد ہوتی ہے جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا اور دفن کیا گیا تھا۔

چرچ کی تاریکی میں یونانی آرتھوڈوکس کے سربراہ ”ہولی ایڈیکول“ حضرت عیسیٰ کی قبر کے طور پر تسلیم کئے گئے مقام میں داخل ہوتے ہیں اور دو روشن موم بتیوں کے ساتھ باہر آتے ہیں۔

ان موم بتیوں سے دیگر موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور یوں چرچ روشنی سے بھر جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ ”مقدس آگ“ خصوصی پروازوں کے ذریعے دوسرے ممالک میں آرتھوڈوکس کمیونٹیز کو منتقل کی جاتی ہے۔

آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ روشنی معجزانہ طور پر ایڈیکول کے اندر ظاہر ہوتی ہے، جبکہ قرونِ وسطیٰ سے اس روایت کو کچھ حلقے محض ایک دکھاوے کا عمل تصور کرتے آئے ہیں۔ تاہم تقریب کا روحانی منظر 1200 سال سے زائرین کو مسحور کرتا آیا ہے۔

ماضی میں یہ تقریب جان لیوا بھی ثابت ہوئی ہے۔ 1834 میں چرچ میں بھگدڑ مچنے سے تقریباً 400 زائرین ہلاک ہو گئے تھے، زیادہ تر دم گھٹنے یا پاؤں تلے کچلے جانے سے مارے گئے تھے۔ اُس وقت کے حکمران کو اس کے محافظوں نے تلواریں سونت کر راستہ بنا کر مشکل سے بچایا تھا۔

اسی خطرے کے پیشِ نظر حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام نے شرکت کرنے والوں کی تعداد محدود کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر گرجا گھر کے رہنماؤں نے احتجاج کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر قدغن قرار دیا ہے۔ اس ہفتے بھی سیکیورٹی سخت رہی اور چرچ کے احاطے میں داخل ہونے کے لیے اسرائیلی چیک پوائنٹس سے گزرنا لازمی تھا۔

امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ایک شخص کو پولیس نے گرفتار کیا جبکہ کچھ خواتین زائرین کو داخلے سے روکنے پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔ چرچ کے اہم نگہبان ادیب جودے نے کہا، ’زائرین سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات تھے۔‘

موجودہ حالات میں شرکاء کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم رہی، جس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 18 ماہ سے جاری جنگ کو قرار دیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ یروشلم کا قدیمی شہر — جہاں یہ چرچ واقع ہے — یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس مقامات پر مشتمل ہے اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان کشیدگی کا مستقل مرکز رہا ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کر کے اسے ضم کر لیا تھا، جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ فلسطینی اسے اپنے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل خود کو مشرق وسطیٰ میں مذہبی رواداری کی علامت قرار دیتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں فلسطینی مسیحی برادری کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا ہے، جس کی وجہ مسلسل کشیدگی اور روزگار کی تلاش میں برادری کا باہر ہجرت کرنا ہے۔

Similar Posts