جاپانی سائنسدانوں کا کارنامہ، لیب میں تیار مصنوعی گوشت کے دنیا کے سب سے بڑے چکن نگٹس

0 minutes, 0 seconds Read

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سائنس حیرت انگیز چیزیں کر سکتی ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے تصور کریں کہ آپ جو خستہ چکن نگٹس کھا رہے ہیں، وہ اصلی مرغی کے نہیں ہیں، تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقیناً آپ کو صدمہ پہنچے گا۔

تاہم جاپانی سائنسدانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی گوشت تیار کرنے کا حیران کن طریقہ تلاش کر لیا ہے، جس سے وہ چکن کے چھوٹے نگٹس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اس عمل میں ایک خاص آلہ استعمال کیا جو ہمارے جسم کی خون کی نالیوں یعنی رگوں کی طرح کام کرتا ہے، تاکہ گوشت اُگایا جا سکے۔ یہ آلہ غذائی اجزاء اور آکسیجن کو چھوٹی نالیوں کے ذریعے جیلی جیسے مادے میں موجود چکن کے خلیات تک پہنچاتا ہے، جس سے گوشت بننے لگتا ہے۔

دی گارڈینز کے مطابق سائنسدانوں نے اس طریقے سے تقریباً 2 سینٹی میٹر لمبا اور 1 سینٹی میٹر موٹا گوشت تیار کیا۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ خاص آلہ، جسے ”ہالو فائبر بائیو ریکٹر“ کہتے ہیں، لیبارٹری میں چکن، مچھلی، گائے کا گوشت تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ مستقبل میں یہ طریقہ انسان کے کام کرنے والے اعضا (آرگنز) بھی تیار کر سکتا ہے۔

اُڑے ہوئے بال دوبارہ اگانے کے آسان طریقے

پروفیسر ڈیرک اسٹیورٹ نے لیبارٹری میں تیار کردہ مصنوعی گوشت کو ایک ”انقلابی قدم“ اور ”انتہائی ہوشیار حل“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سائنسدانوں نے ایسا گوشت تیار کیا ہے جو بالکل اس سائز کا ہے جسے لوگ کھانے کے عادی ہوتے ہیں—یعنی چکن نگٹ جتنا۔

رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کو مصنوعی گوشت کی تیاری کے عمل میں ایک بڑی مشکل کا سامنا تھا جیسا کہ موٹے گوشت کے ٹکڑوں میں پٹھوں کے خلیات تک آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانا۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو muscle cells مر سکتے ہیں۔

سگریٹ کی وہ پیکنگ، جس نے اسے نشے سے فیشن اسٹیٹمنٹ بنا دیا

تاہم ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر شوجی تاکیئوچی نے اس مسئلے کا حل نکالا۔ انہوں نے ایک ایسا بایو ری ایکٹر بنایا جس میں باریک فائبرز موجود تھے، جو آکسیجن اور غذائی اجزاء کو گزرنے دیتے ہیں۔ پروفیسر تاکیئوچی نے بتایا کہ جب موٹا ٹشو اُگایا جاتا ہے تو درمیان کے خلیات تک آکسیجن اور غذائیں پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے وہ مر بھی سکتے ہیں۔ ان کے بنائے گئے نظام نے اس مسئلے کو حل کیا، کیونکہ اس میں اندرونی سپلائی (perfusion) کا انتظام تھا، جس سے موٹا اور بہتر ٹشو اُگانے میں مدد ملی۔

فی الحال، گوشت اُگانے کے بعد گاڑھے فائبرز کو ہاتھ سے نکال لیا جاتا ہے۔ لیکن محققین کا منصوبہ ہے کہ انہیں کھانے کے قابل سیلولوز فائبرز سے تبدیل کیا جائے جو گوشت میں رہ سکیں اور اس کے بناوٹی ساخت کو بدل دیں۔

Similar Posts