سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، شوہر کی وفات پر بھرتی ہونے والی بیوہ کو دوسری شادی پربرطرف نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا، 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اس کے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیرِ بحث آیا تھا جس پر عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کے خلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں، بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے، بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیئے۔
لاہور ہائیکورٹ کا تاریخی فیصلہ: 27 سال بعد بیوہ خاتون کو وراثتی جائیداد میں حصہ دلوا دیا
بیوہ کو دوسری شادی پر سرکاری نوکری سے برطرف کیا جاسکتا ہے یا نہیں، تحریری فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مالی خود مختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے، جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو اس کی دوسری شادی پر انکم ٹیکس محکمہ کے آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا، بیوہ عورت کو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم کے ذریعے نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں، ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے بھی خلاف ہیں، بیوگی کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے، بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت و حقوق کی حقدار ہے۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیراعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے تھا، سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں۔
سپریم کورٹ نے چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی۔