اردن میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت، اخوان المسلمون (Muslim Brotherhood)، پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطاطق اردن حکومت کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے کچھ افراد پر تخریب کاری کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔
بدھ کے روز وزیر داخلہ مازن فریا نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اس جماعت کی سرگرمیاں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اردن کے وزیر داخلہ مازن فریا کا کہنا تھا کہ اب اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، اور جو کوئی بھی اس کے نظریات کو پھیلانے کی کوشش کرے گا، اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
ٹرمپ کا بڑا یوٹرن، چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک کے خلاف سازش کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار 16 دہشت گردوں نے جماعت اخوان المسلمون سے تعلق کا اعتراف کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اخوان المسلمون کے اثاثے، دفاتر اور بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے اور یہ پابندیاں فوری طور پر نافذ العمل ہوگی۔
اردنی حکام نے اخوان المسلمون کو 2024 میں ایک ناکام تخریب کاری کی سازش سے جوڑا ہے۔ تاہم، اخوان المسلمون نے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اردن کی استحکام اور پرامن سیاسی سرگرمیوں کے لیے پرعزم ہے۔
ادھر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اردنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اردن حکومت ظلم و ستم کو بڑھا رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حکام نے غیر واضح اور وسیع قوانین کا استعمال کر کے سیاسی مخالفین پر کارروائی کی ہے اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب، کنٹرول لائن پر 2 مبینہ دراندازوں کی ہلاکت کا دعویٰ بے بنیاد نکلا
اخوان المسلمون کیا ہے؟
اخوان المسلمون کا قیام 1928 میں مصر میں ہوا جس کا بنیادی مقصد اسلامی خلافت کا قیام اور شریعت کا نفاذ ہے۔
یہ تنظیم مصر سمیت مختلف عرب ممالک میں دہشت گرد قرار دی جا چکی ہے تاہم اردن میں گزشتہ کئی دہائیوں سے قانونی حیثیت رکھتی تھی۔