پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی معطلی سے پاکستان کی دوا ساز صنعت شدید دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ پاکستان کیمِسٹس اینڈ ڈرگسٹس ایسوسی ایشن (PCDA) نے دوا سازی کے لیے خام مال کے متبادل ذرائع جلد از جلد تلاش کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق پاکستان نے گزشتہ سال بھارت کے ساتھ 30 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کی دواسازی کی تجارت کی تھی۔ تاہم حالیہ کشیدگی اور پہلگام حملے کے بعد تمام تجارتی تعلقات معطل کر دیے گئے ہیں۔
کیمِسٹس اور ڈرگسٹس کا کہنا ہے کہ اینٹی ریبیز ویکسین، سانپ کے کاٹنے کے تریاق، کینسر کے علاج، اور دیگر بائیولوجیکل مصنوعات کی ادویات چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور یورپ جیسے ممالک سے درآمد کی جا سکتی ہیں تاکہ بلاتعطل دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگرچہ بھارتی خام مال سستا تھا مگر معیار کے اعتبار سے عالمی سطح پر دستیاب متبادل زیادہ بہتر ہیں۔
پی سی ڈی اے کے چیئرمین سمیع اللہ سامد نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) پر زور دیا ہے کہ نئے ذرائع سے اعلیٰ معیار کی ادویات کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ مقامی طلب پوری کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی مارکیٹ سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور بھارت پر انحصار ضروری نہیں۔
دوسری جانب، پاکستانی محکمہ صحت نے بھارت سے تجارت معطل ہونے کے بعد ”ایمرجنسی تیاری“ کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق ڈریپ نے کہا ہے کہ اگرچہ دوا ساز شعبے پر براہ راست پابندی کا کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، لیکن ہنگامی منصوبے پہلے سے تیار کیے جا چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈریپ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم نے 2019 کے بحران کے بعد ایسے کسی بھی ممکنہ حالات کے لیے تیاری شروع کر دی تھی۔ اب ہم اپنی دوا سازی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل راستوں کی تلاش میں سرگرم ہیں۔‘
اس وقت پاکستان اپنی 30 سے 40 فیصد دواسازی کے خام مال، بشمول ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈیئنٹس (API) اور جدید معالجاتی مصنوعات، بھارت سے درآمد کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ ڈریپ کی تیاری اطمینان بخش ہے، لیکن صنعت سے وابستہ افراد اور ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزارت صحت کو تاحال فارماسیوٹیکل درآمدات پر واضح حکومتی ہدایات موصول نہیں ہوئیں، باوجودیکہ تجارتی معطلی کا عام اعلان کیا جا چکا ہے۔
فارماسیوٹیکل شعبے میں خدشہ ہے کہ سپلائی چین میں تعطل کے نتیجے میں اہم ادویات کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ صورتحال اس لیے بھی پیچیدہ ہو رہی ہے کہ غیر قانونی مارکیٹ بھی سرگرم ہے، جہاں غیر رجسٹرڈ اور غیر منظور شدہ ادویات، خصوصاً بھارتی ساختہ، افغانستان، ایران، دبئی اور مشرقی سرحد کے راستے پاکستان اسمگل ہوتی ہیں، لیکن ان کی معیار اور تسلسل کی کوئی ضمانت نہیں۔
جمعرات کو دوا ساز صنعت کے رہنماؤں کے ایک وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور ڈریپ و وزارت تجارت کے حکام سے ملاقات کی۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) کے چیئرمین توقیر الحق نے کہا، ’ہم نے حکام سے درخواست کی ہے کہ دوا سازی کے شعبے کو تجارتی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ کئی جان بچانے والی مصنوعات کا خام مال صرف بھارت سے آتا ہے۔‘
وفد نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) سے بھی رجوع کیا اور مطالبہ کیا کہ صحت اور دواسازی سے متعلق تجارت کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تاکہ مریضوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
ادھر بعض ماہرین نے موجودہ بحران کو پاکستان میں مقامی سطح پر API، ویکسینز اور حیاتیاتی مصنوعات کی پیداوار کے لیے سنہری موقع قرار دیا ہے۔
سینئر پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا تھا، ’یہ بحران پاکستان کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی نے چینی خام مال سے اینٹی ریبیز ویکسین کی تیاری شروع کر دی ہے اور سانپ کے کاٹنے کے تریاق پر بھی کام جاری ہے۔ قومی ادارہ صحت (NIH) اسلام آباد کو بھی اپ گریڈ کر کے ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل بنانا چاہیے۔‘