پاک فوج کی جنگی تیاریاں اور بالخصوص پاکستان کی جانب سے رافیل طیاروں کو مقبوضہ کشمیر میں ریڈار پر پکڑ لینے کے بعد بھارت بظاہر جنگ سے تو پیچھے ہٹ گیا ہے لیکن اس کے سوشل میڈیا پر پر ایک اب نیا رونا دھونا شروع ہوگیا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے نئے بیانیے میں کہا جا رہا ہے پہلگام حملے کے بعد بھارت ساڑھے 3 مکھی جنگ میں پھنس گیا ہے۔
چومکھی جنگ ایسی لڑائی کو کہا جاتا ہے جو تمام چاروں محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا کے مطابق مودی سرکار کو ساڑھے تین محاذوں کا سامنا ہے، ایک پاکستان ہے جب دوسرے دو محاذ چین اور بنگلہ دیش ہیں جب کہ آدھا محاذ بھارت کے اندر ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا نیا بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوئی تو چین لداخ سے حملہ کر دےگا۔ مودی سرکار نے کچھ عرصہ قبل لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کیلاش کی چوٹیاں خالی کردی تھیں۔ اس وقت چین اور بھارت محاذ آرائی میں الجھے تھے۔ اب سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ مودی نے یہ فیصلہ غلط کیا، اگر کیلاش کی چوٹیوں پر بھارت کا قبضہ ہوتا تو چین کو روکا جا سکتا تھا لیکن اب چین یہاں سے ہی حملہ کرے گا۔
چین کے پاکستان سے فوجی تعاون کو بھی ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے چین نے اچانک پاکستان کو عسکری امداد دے دی ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا نے پاکستان کو چینی میزائل دفاعی نظام FD-2000 ملنے کی خبریں دی ہیں جسے بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں نے بھی نئی پیشرفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس یہ میزائل دفاعی نظام سن 2020 سے موجود ہے۔ ایف ڈی 2000 چینی مزائل دفاع نظام HQ-9 کو وہ ورژن ہے جو چین برآمد کرتا ہے۔ اس وقت بھارتی میڈیا نے اس نظام کو غیرموثر کہا تھا۔ اب نئی کہانی بنائی جا رہی ہے۔
پاکستان کو چین سے جے 10 سی طیارے ملنا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ طیارے 2024 کے وسط سے پاکستان کے پاس موجود ہیں۔
بھارت کے نسبتاً کم معروف ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پاکستان چین کے فوجی سٹیلائیٹس سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس میدان جنگ کی تازہ ترین معلومات ہیں۔
بھارتی سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش سے سامنے آنے والے ان بیانات کا بھی حوالہ دیا جا رہا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو بنگلہ دیش کو بھارت کی 7 شمال مشرقی ریاستوں پر قبضہ کر لینا چاہیے۔
مودی کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے رونے دھونے میں بھارتی اپوزیشن کو بھی آدھا محاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چین دوسرے ممالک بشمول کینیڈا اور امریکہ کی سیاست میں سرائیت کر چکا ہے اور اسی طرح بھارتی سیاست میں بھی اس کا اثرو رسوخ ہے اور بھارت کو ملک کے اندر بھی جنگ کا سامنا ہے۔
بھارتی سوشل میڈیا پر نئی کہانی سامنے آنے سے پہلے بھارت میں جنگ کی باتیں کی جا رہی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے بغور جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت امریکی حکام سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا لیکن امریکہ ایسی کوئی یقین دہانی پاکستان سے حاصل کرکے بھارت کو دینے میں ناکام رہا۔ پہلگام حملے کے وقت امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت میں ہی تھے۔ ان کی اہلیہ اوشا کا آبائی تعلق بھارت سے ہے اور اوشا جب اپنے شوہر کو بھارت لائیں تو وہ اپنے بچوں کو کرتا شلوار پہنا کر لائی تھیں۔ اس بنا پر بھارت کو امید تھی کہ شاید امریکہ پاکستان سے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل کردے۔
تاہم یہ امیدیں خام خیالی ثابت ہوئیں اور ان پر مزید پانی اس وقت پھر گیا جب پاکستان نے ہفتہ کے روز ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے ابدالی میزائل کو داغنے کی تیاریوں کیلئے اس کی ٹریننگ لانچ کی۔ ابدالی میزائل پہلے ہی پاکستانی افواج کے استعمال میں ہے۔ ٹریننگ لانچ کا مطلب یہ ہے کہ میزائل کو چلا کر دیکھا جائے کہ وہ جنگ میں داغنے کیلئے ہر طرح سے تیار ہے۔