بھارت نے بنگلہ دیش کا پانی بھی روکنے کی تیاری شروع کر دی

0 minutes, 0 seconds Read

بھارت نے ایک بار پھر خطے کے امن اور استحکام کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے مبینہ حملے کو جواز بنا کر نئی دہلی نے پاکستان کے ساتھ تاریخی سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جسے مبصرین نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے بلکہ بھارت کی آبی دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں عالمی ضمانتوں کے ساتھ طے پایا تھا، اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کا ضامن رہا ہے۔ تاہم، بھارت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ پانی جیسے انسانی مسئلے کو بھی سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ اس فیصلے کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی شدید خدشات نے جنم لیا ہے، جہاں گنگا پانی معاہدہ 2026 میں تجدید کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے جیسے عالمی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر سکتا ہے تو وہ گنگا معاہدے کی خلاف ورزی سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔

معروف ماہر آبی امور نُتن من موہن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام خود بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے، جہاں پہلے ہی شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی عبوری حکومت نے چین اور پاکستان کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان گنگا پانی معاہدہ، جو 12 دسمبر 1996 کو بھارتی وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور شیخ حسینہ کے پہلے دورِ حکومت میں ہوا تھا، خشک موسموں کے دوران بنگلہ دیش کو پانی کے کم از کم بہاؤ کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ معاہدہ تین دہائیوں پر محیط ہے اور 2026 میں ”باہمی رضامندی“ کی بنیاد پر اس کی تجدید ہونا ہے۔

تاہم، ماہر نُتن من موہن نے کہا کہ ’چونکہ گنگا معاہدہ آئندہ سال تجدید کے لیے مقرر ہے، اس لیے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بنگلہ دیش کے ساتھ پانی کی تقسیم کے وعدے پر سوالات اٹھا سکتی ہے۔‘

اسی طرح منوہر پاریکر انسٹیٹیوٹ برائے دفاعی مطالعہ و تجزیہ (IDSA) کے اُتم سنہا کہتے ہیں کہ بشمول گنگا معاہدہ ہمسایوں سے مستقبل کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک موجودہ سیاسی حالات پر ہوگا۔

1996 کے معاہدے کی شق نمبر بارہ (آرٹیکل XII) کے مطابق، ’یہ معاہدہ دستخط کے ساتھ نافذ العمل ہوگا اور تیس سال کی مدت تک مؤثر رہے گا، اور اس کی تجدید باہمی رضامندی کی بنیاد پر کی جا سکے گی۔‘

اہم بات یہ ہے کہ تجدید خودکار نہیں ہے۔ باہمی رضامندی کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان اتفاق یا مفاہمت ضروری ہے۔ اگر کوئی فریق اسے غیر ضروری سمجھے تو وہ معاہدے کی تجدید نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

حالیہ دنوں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی رابطے بھی دیکھنے میں آئے، جس میں ڈھاکہ میں دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کی ملاقات شامل ہے۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کا دورہ بھی طے تھا، تاہم بھارت کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ اور پاکستان مخالف مہم کے باعث اسے مؤخر کر دیا گیا۔

ماہرین کے مطابق بھارت کا یہ اقدام دراصل پاکستان کے ساتھ اپنی ناکامیوں، مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی مزاحمت، اور سفارتی تنہائی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ بھارتی میڈیا میں جس حملے کو بنیاد بنا کر سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا، اُس کے شواہد خود بھارت نے ابھی تک دنیا کے سامنے پیش نہیں کیے۔ اس کے باوجود پاکستان کو ”سزا دینے“ کا خواب بھارتی حکمرانوں کی ذہنیت کا واضح ثبوت ہے۔

پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کا پاسدار ہے اور پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو کسی بھی صورت میں سیاسی دباؤ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھارت کو اس خلاف ورزی سے روکیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی یہ روش نہ صرف جنوبی ایشیا میں ایک نئے آبی بحران کو جنم دے سکتی ہے بلکہ خود اس کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ چین، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی اب بھارت کی آبی اجارہ داری کے خلاف متحرک ہو رہے ہیں۔

یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک غیر ذمہ دار ریاست بنتا جا رہا ہے، جو مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے باز نہیں آتا۔ پاکستان، چین، اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کو چاہیے کہ وہ خطے میں پانی کے پرامن اور منصفانہ استعمال کے لیے متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کو روکا جا سکے۔

Similar Posts