اسٹیٹ بینک آف پاکستان کل دو ماہ کے لیے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا، شرح سود میں ممکنہ رد و بدل کے حوالے سے کاروباری برادری، سرمایہ کار اور ماہرین معیشت بے چینی سے منتظر ہیں۔
ذرائع کے مطابق موجودہ 22 فیصد شرح سود میں ایک سے دو فیصد کمی کا امکان ہے، جس کا مقصد کاروباری لاگت کو کم کرکے صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا اور معاشی پہیہ دوبارہ متحرک کرنا ہے۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (FPCCI) کے وائس چیئرمین نے مطالبہ کیا ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
معروف صنعت کار ذکی اعجاز کا کہنا ہے کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے کم از کم 500 بیسس پوائنٹس (پانچ فیصد) کی کمی ناگزیر ہے، کیونکہ موجودہ بلند شرح سود کے باعث صنعتی قرض گیری تقریباً بند ہو چکی ہے۔
دوسری جانب معاشی و مالیاتی تجزیہ کار عتیق الرحمان نے موجودہ مشکل حالات میں شرح سود میں ”اسٹیٹس کو“ یعنی استحکام کو ترجیح دی ہے۔ ان کے مطابق خصوصاً فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیے خام مال کی درآمد اسی وقت ممکن ہے جب فنڈنگ کی لاگت کم ہو۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو بندرگاہوں، فش ہاربرز، پروسیسنگ یونٹس اور زرعی و مویشی فارمنگ میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس کے لیے مالیاتی استحکام بنیادی شرط ہے۔
عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ بزرگ شہری، فلاحی ادارے اور پنشنرز جن کی آمدنی طویل المدتی سیونگز سے جڑی ہے، ان کے لیے بھی شرح سود کا موجودہ لیول برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کی یومیہ ضروریات پوری ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان پر سخت مالیاتی پالیسی برقرار رکھنے پر زور دے چکا ہے، جبکہ ممکنہ غیر ملکی مالیاتی آمد بھی تاحال موصول نہیں ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں کسی بھی تبدیلی کا براہِ راست اثر نہ صرف مارکیٹ کے اعتماد پر پڑے گا بلکہ مہنگائی، کرنسی کی قدر، برآمدات اور قرض گیری پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ اس تناظر میں اسٹیٹ بینک کا کل کا فیصلہ ملکی معیشت کی سمت کے تعین میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔