بھارت کی فضا میں مسلمانوں کیلئے نفرت اب صرف نعرہ نہیں رہی، بلکہ یہ گوبھی جیسے بے ضرر سبزی کے کھیت میں بھی دفن کی جا چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں، بھارت کی انتہاپسند ہندوتوا تنظیموں اور ان کے حامیوں نے ایک ایسا خطرناک رجحان شروع کیا ہے جو بظاہر بے ضرر نظر آتا ہے، لیکن اس کے پیچھے صدیوں پر محیط نفرت، قتلِ عام اور نسل کشی کی یادیں دبی ہوئی ہیں۔
مارچ 2024 میں مہاراشٹرا کے شہر ناگپور میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد سوشل میڈیا پر گوبھی کے کھیتوں کی تصویریں وائرل ہونا شروع ہوئیں۔
پہلی نظر میں یہ تصاویر صرف ایک کسان کی فصل کی خوشی کا اظہار لگتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک گہرے اور مکروہ پیغام کی عکاسی کرتی ہیں — وہ پیغام جو 1989 کے بھاگلپور فسادات کے دوران دفن کیے گئے معصوم مسلمانوں کی لاشوں پر اگائی گئی گوبھیوں کی یاد دلاتا ہے۔

1989 کا خونی باب: بھاگلپور کا سچ
اکتوبر 1989 میں بہار کے شہر بھاگلپور میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم قتلِ عام ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید کیے گئے۔ گاؤں لوگائیں میں، پولیس افسر رام چندر سنگھ کی قیادت میں ایک ہجوم نے 116 مسلمانوں کو ذبح کیا، ان کی لاشیں دفن کر کے ان پر گوبھی کے پودے لگا دیے گئے تاکہ جرم کا کوئی نشان نہ بچے۔ یہ انسانیت سوز واقعہ کئی ہفتے بعد بے نقاب ہوا جب مقامی افسر اے کے سنگھ نے کسانوں کی گفتگو سے لاشوں کی موجودگی کا پتہ لگایا۔
گوبھی کے نام پر نفرت کی نئی فصل
35 سال بعد، ہندوتوا کی آن لائن بریگیڈ نے بھاگلپور کی اس خونی یاد کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہندو قوم پرست صارفین نے گوبھی کے کھیتوں کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے ان فسادات کو ”حل“ (solution) قرار دینا شروع کیا۔

ایک صارف نے لکھا، ’1989 میں ہماری گوبھی کی پیداوار زبردست تھی (IYKYK)‘ — ایک واضح اشارہ کہ یہ پیغام صرف خاص لوگوں کے لیے ہے۔

’گوبھی فارمنگ‘ کا مطلب: مسلمانوں کے لیے وارننگ؟
ان پیغامات کا مقصد واضح ہے: ماضی کے قتل عام کو یاد دلا کر مسلمانوں کو خاموش کرانا اور ڈرانا۔ 17 مارچ کو ناگپور میں ہوئے فسادات کے بعد ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ جیسے گوبھی ایک بار پھر ”مسئلے کا حل“ بن سکتی ہے۔

کچھ پوسٹوں میں کھلے عام لکھا گیا کہ ’یہ وقت ہے کہ پہاڑی لوگ گوبھی کی کاشت دوبارہ شروع کریں، قبل اس کے کہ دیر ہو جائے‘۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کی وراثت
یہ صرف گوبھی تک محدود نہیں۔ کبھی ’گودھرا‘ کی دھمکی، کبھی ’لو جہاد‘ کا شور، کبھی ’بی ایل ٹی‘ یعنی ’بھگوا لوو ٹریپ‘ جیسے جھوٹے نظریات، یہ سب اس مسلسل پراپیگنڈے کا حصہ ہیں جو مسلمانوں کو بھارت میں ایک اجنبی، ناقابلِ اعتبار اور مشتبہ قوم بنا کر پیش کرتا ہے۔

سوشل میڈیا: نفرت کا نیا میدانِ جنگ
معلومات کی فراہمی کے بجائے غلط معلومات، میمز، اور ہنسی مذاق کے پردے میں نسل کشی کی وکالت ایک نیا خطرناک ہتھیار بن چکی ہے۔ ہندوتوا کے شدت پسند عناصر مسلمانوں کے قتلِ عام کو محض ایک ”memable joke“ بنا کر پیش کرتے ہیں، جس سے عوام کو بتدریج بے حس اور غافل بنایا جا رہا ہے۔
کیا دنیا خاموش رہے گی؟
یہ سوال اہم ہے کہ کیا عالمی برادری ان واضح نسل کش اشاروں پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ کیا ہندوستانی ریاست اور عدلیہ ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کریں گی جو عوام کو قتل عام کی ترغیب دے رہے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا مسلمان برادری ان خفیہ مگر واضح دھمکیوں کو نظر انداز کرے گی یا تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ان کے خلاف آواز اٹھائے گی؟
کیونکہ اگر خاموشی رہی، تو ہوسکتا ہے کہ اگلی گوبھی کی فصل صرف ایک سبزی نہ ہو، بلکہ ایک اور قبرستان بن جائے۔